“چلو! دیر ہورہی ہے کیا سوچ رہی ہو بیٹھو۔۔” حنظلہ پچھلے پانچ منٹ سے اپنی بائیک یشل کے سامنے لیے کھڑا تھا پر وہ بس گھورے جا رہی تھی کبھی کبھی ان دونوں جانی دُشمنوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جانا پڑتا تھا جس پر نہ حنظلہ خوش ہوتا نہ ہی یشل۔
” دیکھ لو حنظلہ پچھلی بار کی طرح اگر بائیک تمہاری پنکچر ہوئی یا کہیں رکی نہ تو میں نے گھر جا کر اس کو آگ لگا دینا ہے دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے اور تم ہو ابھی تک اس کھٹارا بائیک کو ہی رکھا ہوا ہے” پچھلی بار بھی بات یاد کرتے ہوئے وہ وارننگ دے رہی تھی۔
” میں تو جیسے کسی بادشاہ کا بیٹا ہوں نا جو جس کے ایک فون پر ہزاروں گاڑیاں ا جائیں گی پیٹرول ڈالنے تک کے لیے تو مجھے ابا کی منت کرنی پڑتی ہیں تو بائیک کیسے بدلوں گا پر بس کچھ ٹائم لگایا تھا ٹک ٹاک پر اپ کافی اچھے ویوز انے لگے ہیں تم دیکھنا ایک وقت میں اچھے خاصے پیسے ائیں گے تو بائیک کیا کار ہی لوں گا۔ تیوری پر بل ڈالتے کہہ رہا تھا۔
حنظلہ نے اپنی ساری پلاننگ بتا دی تھی یشل بیگ بیچ میں رکھتی بائیک پر بیٹھ گئی تھی پھر پورے سفر پہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی تھی کیونکہ وہ لوگ جب بھی بات کرتے تھے تو بات کم لڑائی زیادہ ہوتی تھی۔۔ گھر پہنچ کر یشل حنظلہ کے ساتھ ہی اسماعیل صاحب کی طرف اگںٗی تھی وہ دونوں راہداری میں ہی تھے جب کانوں میں پڑنے والی آواز نے دونوں کو پتھر کا کر دیا تھا۔۔
“ہم نے سوچا ہے تعبیر کے ساتھ ساتھ یشل اور حنظلہ کی بھی شادی کر دی جاںٔے۔۔ ” تھوڑی دیر پہلے میر شاہ نے یوسف اور ان کی زوجہ کو یہاں بلایا تھا اور اب وہ سب ساتھ لانچ میں بیٹھے تھے۔
” ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ابا لیکن تعبیر کی شادی میں ہی اتنا خرچہ ہو جائے گا تو پھر یشل اور حنظلہ کی شادی ساتھ کرنا مشکل ہے اور ابھی تو ہم نے یشل کے لیے کوئی لڑکا بھی نہیں ڈھونڈا۔ ” یوسف صاحب آپ نے کہا،حیرت میں تو وہاں بیٹھا ہر نفوس تھا اپنی اور یشل کی شادی کا سوچ کر حنظلہ نے جھرجھری لی تھی۔
” جی ابا یوسف صحیح کہہ رہا ہے حنظلہ کے لیے بھی ابھی ہم نے کہاں کوئی لڑکی ڈھونڈی ہے اور ابھی تک تو حنظلہ پڑھ ہی رہا ہے پہلے اس کا تھوڑا فیوچر بن جائے پھر ہی ہم اس کی شادی کے بارے میں سوچیں گے۔ ” اسماعیل نے بھی یوسف صاحب کی طرف داری کی تھی۔
‘ لڑکا یا لڑکی ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب دونوں بچے ایک ہی گھر کے ہیں تو ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یشل کی شادی حنظلہ سے کردی جائے۔ ” میر شاہ کی بات باہر کھڑے یشل اور حنظلہ پر بم کی مانند گری تھی ان کے ساتھ ساتھ یوسف اسماعیل صاحب اور شاہین اور انم بیگم بھی حیرت کے مارے ساکت ہو گئی تھی۔
” جی ابا پر یشل اور حنظلہ یہ کیسے ہو سکتا ہے دونوں بچے ایک دوسرے کو پسند ہی نہیں کرتے اور اپ نے دیکھا تو ہے ہر وقت بس لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں ان کا تو کوئی ملاب بھی نہیں ہے۔ ” اسماعیل صاحب نے جب کہا تو میر شاہ نے آنکھیں دکھائیں۔
” دونوں بچے گھر کے ہیں دیکھے بھالے ہیں اب تم ہی بتاؤ شاہین اگر ہم اپنی یشل کو کہیں باہر دے دیتے ہیں تو کیا بھروسہ وہ لوگ کیسے ہوں گے اور تم بتاؤ انم کل کو باہر سے انے والی لڑکی اگر تم لوگوں کو چھوڑ کر جانے کی بات کرے گی تو تم کیسے رہو گے اپنے بیٹے کے بغیر اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گھر کے بچوں کی اپس میں شادی کرتے ہیں ویسے بھی یشل کو ہم اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ ” میر شاہ کی ساری باتیں درست تو تھی لیکن اس رشتے کو ہضم کرنا گھر کے ہر فرد کے لیے مشکل ہی تھا۔
” ہم تو فیصلہ کر چکے ہیں اگر تم ہمیں بڑا سمجھتے ہو تو ہمارے فیصلے کا احترام کرو گے ورنہ تم لوگوں کی اپنی مرضی ہے ٹھیک ہے بچے لڑتے ہیں پر میاں بیوی میں تو شادی کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے۔ ” میر شاہ بات کا اختتام کرتے فیصلہ کن انداز میں کہتے اٹھ کر گھر سے باہر نکل گئے تھے پیچھے وہ چاروں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
” ماما یہ ددہ کیا کہہ کے گئے ہیں میں اس بندے سے شادی کبھی بھی نہیں کروں گی آپ انہیں منع کر دیں۔ ” یشل آتے ہی چیخ پڑی تھی۔
” مجھے تم سے کون سا شادی کرنے کا شوق ہے تم سے شادی کرنے سے تو اچھا ہے کہ میں شادی ہی نہ کروں زندگی بھر کنوارا بیٹھا رہوں۔.. ” حنظلہ بھی دوبدو جواب دیا تھا۔ ترکی بہ ترکی حساب برابر کیا
” اب تم دونوں لڑنا شروع کر دینا جاؤ نا اپنے اپنے کمروں میں اچھا بھائی ہم لوگ چلتے ہیں۔ ” شاہین بیگم یشل کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے نکل گئی تھی۔
________________________________