Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 46

قیام ہارون نے بختاور کو صاعقہ کی پریشانی کو لے کر ساری بات بتائی تھی اور اسے اپنی مدد کرنے کا کہا تھا۔
”تم کیا چاہتے ہو؟ وہ مجھے اپنے ذاتی مسائل کیوں بتانے لگیں؟ میری تو ان سے دوستی بھی نہیں ہے۔“ بختاور نے کئی ایک اعتراضات گنوا دیے تھے۔
”میں جا کر ان سے کہوں گی کہ آنٹی آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہو تو مجھے بتائیے! میں چٹکی بجاتے میں حل کروں گی۔“ کینٹین میں اپنی مخصوص میز پر بیٹھے وہ اس کی بات سن کر بلا تکان بولتی چلی گئی تھی۔
”اور وہ کہیں گی ہاں بختاور! بالکل! میرا تمھارے علاوہ کوئی غم گسار نہیں ہے۔ میں تمھیں ہی سب بتاؤں گی۔“ وہ صاف اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
”تم طریقے سے بات کرو گی تو وہ بتا دیں گی۔“ اس نے فقط اتنا ہی کہا تھا۔
”نہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ میرے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے جو میں گھماؤں گی اور وہ فٹا فٹ مجھے سب بتا دیں گی؟“ قیام نے اپنا سر پیٹا اور تڑخ کر اسے کہا تھا:
”جتنا استعمال تم اپنی زبان کا کرتی ہو کاش اتنا استعمال اپنے دماغ کا بھی کر لیا کرو۔“ دوسرے لفظوں میں وہ اسے کم عقل اور بے وقوف کَہ رہا تھا۔
”ہاں جیسے تم تو اپنے دماغ کا استعمال کرنا خوب جانتے ہو۔ تم خود بھی ایک نمبر کے گھونچو ہو!“ بختاور کو اس کا یہ کہنا سخت برا لگا تھا۔
”یہ میں ہی تھی جس نے تمھیں ماہ نور صدیقی کے ابو کے پاس جانے سے منع کیا تھا ورنہ تم تو۔۔۔“ وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی تھی۔
”اچھا بس اب! جس طرح مجھے باتوں میں لگا کر اپنی مدد پر آمادہ کر لیا تھا۔ اسی طرح ممی سے بھی تم نے ان کی پریشانی جاننی ہے بس!“ قیام کی بات پر اس کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
”میں نے باتوں میں لگایا تھا یا تم خود میرے سر پر سوار رہنے لگے تھے؟“
”ہاں جو بھی ہے۔ تم میرے حواسوں پہ ایسے سوار ہو جاتی ہو کہ تمھارے علاوہ کچھ سوجھتا ہی۔۔۔“
”آج میری کوئی کلاس نہیں ہے، کیا مجھے اپنے گھر لے چلو گے؟“ بختاورنے بیگ کندھے پر لٹکایا اور اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ قیام کی ایسی باتوں سے فرار کا ایک یہی حل تھا کہ اس کا دھیان بٹا دیا جائے۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اس کے ان جذبات کی پذیرائی کرے یا کیا؟ وہ جب بھی اشاروں کنایوں میں ایسی کوئی بات کہتا وہ فوراً ہی موضوع بدل کر اس کی توجہ بٹا دیتی تھی۔ قیام ہارون بھی بچہ نہیں تھا جو اس کا یہ گریز سمجھ نہ سکتا۔ چہرے پہ کسی قسم کے بھی کوئی تاثرات لائے بنا وہ اس کی جھجک سمجھ کر خود بھی مزید کچھ نہیں کہتا تھا۔ اب بھی تو یہی ہوا وہ جذبات کی رو میں وہ اپنے دل کی بات کَہ گیا اور اس نے پھر بات ٹالنے کو اس کے گھر جانے کا کَہ دیا تھا۔
”تم ممی سے بات کیسے کرو گی؟“ وہ اس کے ساتھ بائیک پر بیٹھنے کے کیے رضا مند نہیں ہوئی تو مجبوراً قیام نے اپنی بائیک یونی ورسٹی کی پارکنگ میں لاک کی اور اس کی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ڈرائیونگ کے دوران ہی اس نے پوچھا تھا۔
”یقیناً منھ سے کروں گی۔ کیا تم نے کسی انسان کو کبھی ناک یا کان سے باتیں کرتے دیکھا ہے؟“ قیام اس نادر و نایاب جواب پر اسے گھور کر رہ گیا تھا۔
”آگے دیکھ کر دھیان سے گاڑی چلاؤ۔۔۔“ بختاور نے اسے دیا دلایا کہ وہ سڑک پہ گاڑی چلا رہا ہے کینٹین میں نہیں بیٹھا ہوا۔
”تم آنکھوں کا ذکر کرنا بھول گئی ہو۔“ موڑ مڑتے ہوئے اس نے کہا اور ایک گہری نظر سے اسے دیکھا تھا۔
”آنکھوں سے باتیں کوئی پاگل ہی کرتا ہو گا۔“ اس نے چیونگم چباتے ہوئے لاپروائی سے کہا تھا۔
”میں تو کرتا ہوں تو کیا میں پاگل ہوں؟“ اس نے پوچھا تھا۔
”جس سے کرتے ہو اسی سے پوچھنا۔“ وہ کَہ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
”اسی سے تو پوچھ رہا ہوں۔“ وہ اتنا آہستہ بولا تھا کہ بختاور کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس نے کیا کہا تھا؟
”کیا کہا تم نے؟“ اس نے پوچھا تھا۔
”جس سے کرتا ہوں اس کی آنکھیں نہیں بھینس کے ڈیلے ہیں کہ صرف چہرے پر سجا رکھے ہیں، ڈھنگ سے کچھ دیکھنے سمجھنے کا کام نہیں لیتی۔“ قیام جھنجھلاہٹ سے بولا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اسے کندھوں سے پکڑ کر بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دے اور اپنے جذبات کی پذیرائی اور محبت کا جواب مانگے۔ لیکن پھر اپنے دل پر ضبط کے پہرے بٹھا گیا تھا۔ محبت زور زبردستی کا کھیل تو نہیں تھی جو وہ اس سے زبردستی اپنی محبت کا اقرار کرواتا، محبت تو خود رو پودے کی طرح سر زمینِ دل پر خود ہی اگ جاتا ہے۔ وہ بھی اسی انتظار میں تھا کہ کب اس کی محبت کے پھول بختاور کے دل کی زمین پر مہکتے ہیں۔
”تو آنکھوں کے بجائے موسیقی کی زبان استعمال کرتے ہوئے بھینس کے آگے بین بجانا شروع کر دو۔“ اس کے انوکھے اور شاہ کار مشورے پر قیام نے ایک نگاہ اس کے نازک سراپے پر ڈالی اور تصور میں بھینس کو سوچا اور اگلے ہی پل اس کا قہقہہ گاڑی کی محدود فضا میں گونجا تھا۔
”بھینس کے آگے بین۔۔۔“ گھر پہنچنے تک وہ ہنستا ہی رہا تھا جب کہ بختاور کو اس کے پاگل ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment