گھر آکر بھی اسکا موڈ بحال نہ ہوا۔ تایا کے کمرے میں عارب، دانیہ، تائی اور چچا چچی بیٹھے تھے۔ دو گھنٹے سے میٹنگ جاری تھی۔ وہ برے موڈ کے ساتھ کچن میں آئی تو کچن کے ساتھ ہی بنے ڈائینگ ٹیبل پر معیز کو کھانا کھاتے دیکھا۔ وہ مگن سا کھانا کھارہا تھا، اردگرد سے بے خبر۔ سکینہ چپ چاپ چلتی فریج کی طرف گئی۔ پانی کی بوتل لی اور ایک طرف شیلف سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔
“آج خیریت ہے نا سکینہ بی۔۔۔یہ اتنی خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے۔” دونوں بھائیوں کو عادت تھی اسکا نام بگاڑنے کی، اسنے بے اختیار آنکھیں گھمائیں۔ اتنا اچھا نام تھا۔ مجال ہے کوئی ڈھنگ سے لیتا۔ معیز اب کھانے سے فارغ ہوکر پانی کا گلاس پکڑے پیچھے کو ٹیک لگا چکا تھا۔ سکینہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر خاموشی سے ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ وہ ناراض تھی کوئی تو محسوس کرتا!
“بتاو یار۔۔۔کیا ہوا ہے؟”اسنے دوبارہ پوچھا، لیکن سکینہ زبان پر ایسا قفل لگایا تھا کہ ٹوٹا ہی نہیں۔ معیز شرارت سے مسکراتے ہوۓ اٹھا اور پانی کا گلاس لیے اسے پاس ہی آگیا۔ سکینہ ہنوز اپنی پہلی پوزیشن پر قائم تھی۔
“اچھا ناراض ہو؟” اشیلف پر بیٹھتے ہوۓ وہ بولا۔ پانی کا گلاس ایک طرف رکھ دیا۔
چلو کسی کو تو احساس ہوا۔۔۔۔خاموشی
” سکینہ۔” بڑی محبت سے اپنی لاڈلی بہن کو پکارا گیا۔ اب یہاں وہ پگھل گئی۔ اتنی محبت کی پکار پر وہ کیسے لاتعلق رہ سکتی تھی۔
“کیا ہے؟” ناراضی سے اسکی طرف دیکھا۔ معیز نے اسکے انداز پر مسکراہٹ دبائی ۔ پھر مصنوعی سنجیدگی چہرے پر سجا کر بولا۔
“کسی نے کچھ کہا ہے ؟”
“نہیں تو۔۔۔!” دوبارہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ معیز نے اسکی معصومیت پر بمشکل ہنسی روکی، معاملہ سنجیدہ تھا۔ کائیم پارٹنر کی پنچائیت کا فیصلہ تھا۔ زرا سی چوک ہوجاتی تو چودھری صاحب دھر لیے جاتے۔
عارب کی ایک سنجیدہ نظر اسکا یہ حال کرچکی تھی کہ معیز کے یوں پکارنے پر اسکا دل کیا رودے۔ آنکھوں کے کٹورے جیسے پانی سے بھر بھر جارہے تھے۔
“عارب نے کچھ کہا ہے؟” وہ سرے تک پہنچ آیا تھا، اور وہ بھی جیسے برداشت کی آخری حد پر تھی۔ تڑخ کر بولی۔
“وہ بہت برا ہے۔۔۔۔” اور یہ کہتے ہی آنکھوں سے چھلکتے آنسو سارے بندھ توڑتے باہر نکلتے چلے آۓ۔ اتنی دیر کا جو بندھ باندھا ہوا تو ایک پل میں ٹوٹ گیا اور پھر سکینہ سیال زلیخہ سیال کی بیٹی روتی رہی۔ معیز جو اسکے یوں رونے پر پہلے ہی بوکھلا چکا تھا اب اسکا سر اپنے کندھے کے ساتھ لگاۓ چپ کروانے لگا
“سکینہ یار رؤ تو نہیں۔۔۔اس میں رونے والی کیا بات ہے۔ ” اسکا سر تھپکتے ہوۓ وہ بول رہا تھا۔ لیکن وہ بس عارب کی اس آخری بات میں اٹکی تھی اور روۓ جارہی تھی۔
“مجھے بتاؤ تو سہی اسنے کیا کہا ہے تم سے۔۔۔۔سکینہ! ادھر دیکھو۔” اسکا چہرہ اپنے سامنے کرکے صاف کرتے ہوۓ اسنے کہا تھا۔
“بتاؤ مجھے!” دوبارہ کہا۔ اب کہ پیٹ کی ہلکی سکینہ سے مزید برداشت نہ ہوا اور اسے سب بتاتی گئی۔ دانیہ کی بات پر معیز خود بھی ٹھٹھکا۔ اندر کہیں طمانیت کا احساس جاگا تھا۔ وہ اسکے راستے سے خودبخود ہٹ رہی تھی، اور یہ ایک اندیکھی غنیمت تھی۔
“ا اچھا چلو اسے آنے دو، پھر میں خود بات کرتا ہوں۔” ۔دانیہ کے بارے میں سوچتے ہوۓ اسنے اپنے سامنے کھڑی سکینہ سے کہا۔ دماغ تانے بانے بننے میں مصروف تھا۔
دوسری طرف سکینہ کو احساس ہوا تو فوراً آنسو روکے، چہرہ صاف کیا اور اسے دیکھنے لگی۔ یہ ٹیلنٹ اسکے پاس تھا۔ وہ فوراً آنسو نکال بھی لیتی تھی، روک بھی لیتی تھی اور بغیر آنسوؤں کے رونا تو ایک پرو لیول کا ٹیلنٹ تھا۔ جو اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کچھ پل بعد جب وہ بولنے کے قابل ہوئی تو ناراضی سے بولی۔
“نہیں۔۔۔اسنے کہا ہے کہ میں کچھ گھنٹے ناراض رہوں تو اب میں اس سے ناراض ہی رہونگی۔۔۔رہے مناتے، مانی تو پھر کہنا۔”ناک پونچھتی ہوئی وہ اس سے مخاطب تھی۔ معیز نے ایک تاسف بھری نظر اس پر ڈالی۔ دور اندر کہیں وہ سکینہ کے انداز پر ٹھٹھک سا گیا تھا۔ لیکن آجکل وہ خود اپنے مسئلوں میں الجھا ہو تھا تو زیادہ دیر انکی بارے میں سوچ نہیں سکا۔ کندھے اچکاۓ اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ دانیہ کی حرکت اسے واقعتاً سکون دے چکی تھی۔ اب اسے کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مہرہ خود اپنی چال چل کر پھنسنے والا تھا۔
__________