افق سے نکلتے سورج کی کرنیں سیدھا غزنوی پیلس پر پڑ رہی تھیں۔ باہر بنے خوبصورت گارڈن سے دائیں جانب دیکھیں تو ایک بڑا دروازہ کھلتا ہے جو اندر ہال کی جانب جاتا ہے۔ ہال سے بائیں جانب کی طرف فرنیشڈ اٹیلین کیچن ہے جہاں دونوں باپ بیٹے بیٹھ کر ڈائنگ پر ناشتہ کر رہے تھے۔
رضیہ۔۔۔۔ ”ایک پراٹھا اور لاؤ ، دیسی گھی کے ساتھ“
پہلے سے موجود پراٹھے کے ساتھ انصاف کرتے الیکزینڈر نے کیچن میں موجود ملازمہ کو آواز لگاتے کہا
”نواب صاحب آفس کب سے جوائن کرنے کا ارادہ ہے“۔۔۔؟ چائے کا گھونٹ بھرتے وہ الیکزینڈر کی جانب دیکھتے استہفامیہ لہجے میں گویا ہوئے
”ڈیڈ آپکو پتہ تو ہے ، مجھے آفس وغیرہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ، میں الیکزینڈر غزنوی ہوں اپنی دنیا میں مگن رہنے والا“
اپنے میسی بالوں کو ایک ادا سے سلجھاتے ہوئے کہا
”سوچ لو اگر تم میرے ساتھ آج آفس نہ گئے تو مجھے باپ کہنے کا حق کھو دو گے“۔۔۔ کائد غزنوی نے برہمی سے کہا جس پر وہ سہولت سے کرسی پیچھے کرتا اٹھ گیا۔
”کہاں جا رہے ہو“۔۔۔؟ اس کو ایسے یوں اٹھتا دیکھ کر وہ تشویش کن لہجے میں بولے
”روم میں جا رہا ہوں کائد صاحب ، کیونکہ اب میرے پاس سے آپ کو باپ کہنے کا حق چھین چکا ہے“۔۔۔۔ چہرے پر سنجیدگی سموئے کہا جبکہ کائد غزنوی نے اس کو اچھی خاصی گھوری سے نوازہ جس پر وہ مسکرا دیا۔
”ہاہاہا !! مزاق کر رہا ہوں ڈیڈ ، بس تیار ہونے جا رہا ہوں۔۔۔ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے پر سکون کرتا اوپر کی جانب سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے چل دیا۔
❤️🔥