Uncategorized

Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 3

“قاضی صاحب آگئے ہیں۔”باہر سے کسی کی آواز بلند ہوئی تھی جو لان سے منسلک اس کمرے میں واضح سنائی دی تھی۔سبین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔اب بس کچھ وقت کا انتظار تھا اور اس نے اپنا وجود ایک اجنبی شخص کو سونپ دینا تھا۔یہ بھی ایک الگ ہی قسم کی بےقراری تھی جس میں سرور سا تھا۔وہ آج خود کو اس شخص کے سپرد کرنے جا رہی تھی جس کے وہ محض نام سے ہی واقف تھی اور ابھی کچھ دیر میں اسی نام سے منسوب ہونے والی تھی۔
“شکر اے آگیا۔غفران کا بچہ کب سے گیا وا تا اور اب آیا اے بےکاراں۔”چوکڑی مارے بیٹھی سبین کی ساس نے سر جھٹکتے ہوئے اپنے چھوٹے بیٹے کو خیالوں میں گھرکا تو سبھی کی دبی دبی ہنسی فضا میں گونجنے لگی اور سبین نے دیور کی عزت افزائی پر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔
وہ اپنی ساس،نندوں،دیورانیوں،جیٹھانیوں اور ان کی بیٹیوں سے اچھے سے واقف تھی کیونکہ وہ سبھی اس سے مل چکیں تھیں اور نندوں وغیرہ سے تو کال پر بھی کئی پر اس کی بات ہو چکی تھی۔بس ایک سیاں جی تھے جن سے وہ انجان تھی۔
باہر لان میں بیٹھے سبین کے سیاں جی بھی اس سے اتنے ہی انجان تھے اور بےقراری کا عالم بھی کچھ کم نہ تھا۔قاضی صاحب تشریف لا چکے تھے اور اب سِنان کے برابر،کرسی پر براجمان تھے۔دلہا اور دلہن کے والد بھی قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔قاضی صاحب نے نشست سنبھال کر نکاح کا آغاز کیا۔
“سِنان خان آفریدی ولد زریاب خان آفریدی،میں نے سبین احمد ولد احمد علی کو آپ کے نکاح میں دیا۔حق مہر پانچ لاکھ روپے،آپ کو قبول ہے۔”بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور قاضی صاحب نے ایجاب و قبول کا مرحلہ عبور کیا۔نکاح نامے میں تفصیل دیکھ انہوں نے برابر میں بیٹھے دلہا سے پوچھا۔
سِنان نے دھڑکتے دل کے ساتھ جواب دیا۔
“جی قبول کیا۔”اس کی زبان سے الفاظ ادا ہوئے اور فرطِ جذبات میں آکر اس کے گھر والوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔وہ سب ہی اس کی شادی کی طرف سے مایوس تھے اور اب جب وہ ایک دوشیزہ کو اپنی زوجیت میں قبول کر چکا تو گھر والوں سے رہا نہیں گیا۔
قاضی صاحب نے اسے مبارک دی پھر دعا کا سلسلہ شروع ہوا۔سب نے خاموشی سے دعا سنی اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر،مبارک باد دینے کیلیے دلہا کا رخ کیا۔سب سے پہلے قاضی صاحب نے اسے گلے لگایا پھر وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے باپ کے ساتھ لگ گیا۔
“مبارک شه زویه۔”
(مبارک ہو بیٹا)گلے لگا کر انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنی زبان میں مبارک باد سے نوازا پھر الگ ہو کر اسے سبین کے والد کی جانب متوجہ کیا۔
وہ مسکراتا ہوا ان کی جانب بڑھا۔وہ بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔وہ آگے آیا اور ان سے بغلگیر ہوا۔
“مبارک ہو بیٹے۔”انہوں نے بھی اپنے داماد کو دعاؤں سے نوازا۔
“شکریہ۔”ان کا شکریہ ادا کر وہ ان کے ساتھ کھڑے،اپنے اکلوتے سالے احمر سے ملا۔
“سِنان بھائی اب تو آپ آفیشلی ہمارے گھر میں شامل ہوگئے۔اب مزہ آئے گا۔”اس سے گلے لگ کر احمر نے خوشی سے کہا۔اس کی بات و انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنے بہنوئی سے بخوبی آشنا تھا اور یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات نہیں تھی۔بالکل جیسے سبین،سِنان کے گھر والوں کو جانتی تھی۔اسی طرح سِنان بھی اس کے گھر والوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتا تھا۔
“تمہیں بڑی خوشی ہو رہی ہے۔”سِنان نے پیار سے اس کا گال تھپکا۔
“ہاں تو کیوں نہ ہو!اب میں سب پر بھرم ڈالوں گا کہ بھئی میری آپی کے شوہر اتنے ہینڈسم اور فٹ فاٹ ہیں۔”اس کے اپنے ہی مزے تھے۔
سِنان کا دل “آپی کے شوہر” سن کر اٹکا۔وہ مسکرانے لگا۔دلفریب،جان لیوا سی مسکان۔اب تو بس اس سے ملنے کا انتظار تھا تاکہ پہلا دیدار ہو سکے۔پتہ تو چلے کہ اماں نے کیا شاہکار ڈھونڈا تھا اپنے خوش شکل،خوبرو اور ان کے بقول زوړ سړی(بوڑھے آدمی)کیلیے۔اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
“اوئے ہوئے سِنان بھائی تو بہت خوش ہیں یار۔”یہ وسیم تھا جو ابھی احمر کے پاس آکر کھڑا ہوا تھا اور اپنی کزن کے شوہر کو مسکراتا دیکھ اسے چھیڑنے لگا تھا۔
“اوئے لڑکے،بالش بھر کا ہے اور مجھے چھیڑ رہا ہے۔یہ ہے کون احمر؟”اس نے وسیم کے گال کو بھی تھپکا اور مصنوعی خفگی دکھائی پھر اپنے سالے سے اس کا تعارف چاہا۔
وسیم اور احمر اس کی پیار بھری خفگی پر ہنسنے لگے۔
“یہ میرا کزن ہے۔میرے ماموں کا بیٹا۔”احمر نے تعارف کروایا۔
“اچھا اچھا۔۔۔”سِنان نے اثبات میں سر ہلایا۔
اسی بیچ احمد صاحب کی آواز شور و غل کے درمیان بلند ہوئی۔وہ گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ رہے تھے جب انہوں نے اپنے بیٹے کو پکارا۔
“احمر چلو آؤ بیٹا،آپی سے بھی تو پوچھنا ہے نکاح کا۔”انہوں نے سہل زبان میں سمجھاتے ہوئے،اپنے بیٹے کو پکارا۔
“بس ابھی آئے ہم آپی سے پوچھ کر۔وہ بھی ہاں کہہ دے تو پھر آپ پکے والے بھائی بن جائیں گے۔”شرارت سے کہتے ہوئے وہ اپنے والد کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔وسیم بھی ساتھ ہی ہو لیا اور پیچھا کھڑا سِنان منتظر سا وہاں بیٹھ گیا۔
اب بس سبین کے ہامی بھرنے کی دیر تھی پھر ان دونوں کی دنیا مختلف ہو جانی تھی۔وہ نیچے سر کیے مسکرانے لگا۔اسے شرم نہیں آرہی تھی مگر یہ سب کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا سو دل میں کچھ گدگدی سی ہو رہی تھی۔
وہ لڑکی ذات سے کوسوں دور رہنے والا شخص،جس نے آج تک اپنی ماں بہنوں اور محرم عورتوں کے علاوہ کس بھی صنفِ نازک کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا،وہ آج ایک بالکل غیر لڑکی کو اپنی زوجیت میں قبول کر چکا تھا۔وہ اس کی محرم بن گئی تھی اور اب وہ اس کی سب سے قریبی تھی۔اس کی بیوی،اس کی ذمہ داری،اس کی عزت اور اس کی غیرت۔۔۔
سِنان مسکراتے ہوئے اپنی ان دیکھی شریکِ سفر کے بارے میں سوچے گیا اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ اپنے کام کے علاوہ کسی اور کے خیالات میں غرق ہوا تھا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on