دن یونہی بےکیف گزرتے رہے۔ اس کے بعد بھی ایک دو بار دونوں کسی نا کسی دعوت میں شرکت کرتے رہے۔ زینب اب کے محتاط ہی رہتی کہ ابراہیم کو شکایت کا کوئی موقع نہ ملے۔ مگر اس کے باوجود اس کی روک ٹوک ہنوز جاری تھی۔ ابراہیم کے دفتر روانہ ہونے کے بعد زینب پورے گھر میں بولائی بولائی پھرتی۔ اور اکثر اس اکتاہٹ سے چھٹکارا پانے کیلئے وہ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے فون پر بات چیت کرکے اپنا دل بہلالیا کرتی۔