الیکزینڈر بہت پر سکون انداز میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ نورا خود کو کمپوز کرتے بنا اس کی جانب دیکھے ٹیبل سے سامان اٹھاتی باہر کی جانب بڑنے لگی تھی ، مگر الیکزینڈر کی پکار پر اس کے بڑھتے قدم تھمے۔۔۔۔
مس ایکس وائے زی۔۔۔۔۔ ”کس کی اجازت سے آپ باہر جا رہی ہیں؟ ”کیا آپ نے مجھ سے اجازت لی“۔۔۔؟ تمسخر نظروں کے ساتھ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بہت دلچسپی سے دیکھتے کہا
” آپ میرے باس نہیں ہیں جو ، باہر جانے کیلئے مجھے آپ کی اجازت درکار ہو“۔۔۔۔ کٹھور پن سے کہتی وہ باہر کی جانب بڑھتے بڑھتے پھر رکی۔
”ایک اور چیز ، صرف اس کرسی پر بیٹھ جانے سے کوئی باس نہیں بن جاتا ، بلکہ باس بننے کیلئے اس کرسی کی تمام ذمہ داریاں بھی اٹھانی پڑتی ہیں ، اسلئے اگلی مرتبہ مجھ پر حکم چلانے سے پہلے یہ سوچ لیجئے گا کہ میں اس آفس کی ایمپلائی ہوں آپ کی نہیں“۔۔۔۔ آنکھوں میں سنجیدگی سموئے اس کی جانب دیکھتے ایک ایک لفظ باور کرواتی وہ باہر کی جانب مڑ گئی جب کہ الیکزینڈر غزنوی کے لبوں پر قفل سا لگ چکا۔ دنیا کو اپنے اشارے سے خاموش کروانے والے شخص کو ، وہ لڑکی اپنے لفظوں سے خاموش کروائے چلی گئی۔۔۔۔ وہ جا چکی تھی لیکِن الیکزینڈر غزنوی کے ہونٹوں پر ایک دلکش مسکان نمودار ہوئی۔ ایک طرف جہاں وہ اس کی جرآت و خود اعتمادی کو سراہا رہا تھا وہیں دوسری طرف اس کو کہیں غصہ بھی تھا کیوں کہ جانے انجانے میں نورا ملک ، الیکزینڈر غزنوی کو چیلنج کر گئی تھی۔
❤️👀
اگلے دن صبح نو بجے۔۔۔۔
بلو سٹریٹ جینس پر کھلی ٹی شرٹ پہنے ، اوپر ڈینم کی جیکٹ زیب تن کیے ، معمول کے مطابق بالوں کو ماتھے پر بکھیرے ،وجہیہ چہرے پر ہلکی بیرڈ جو الیکزینڈر غزنوی کے دلکش نقوش کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔
تقریباً بھاگنے کے انداز میں وہ سیڑھیاں نیچے اترا رہا تھا ، جس کے باعث ماتھے پر موجود بال مزید بکھرتے اس کی شخصیت کو کافی وجہیہ بنا رہے تھے۔
”ڈیڈ“۔۔۔۔۔ !! الیکزینڈر نے قریباً تیز آواز میں کائد غزنوی کو پکارا جو باہر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
ان نے پیچھے مڑ کر ابرو اچکاتے اسے دیکھا۔۔۔۔
”حکم چھوٹے نواب“۔۔۔۔۔
”آج سے میں بھی آپ کے ساتھ آفس آ رہا ہوں“۔۔
اپنے مخصوص اسٹائل کے ساتھ بالوں کو جھٹکتے ہوئے کہا گیا جس پر ان نے شکی نظروں سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا۔
”آج سورج مشرق سے ہی نکلا ہے نا“۔۔۔۔۔؟ ایک نظر اس کو دیکھتے پھر باہر کی جانب دیکھتے ، یقین کرنا چاہا“۔۔۔۔۔
”ڈیڈ آئی ایم سیریس“۔۔۔۔۔
”نواب صاحب ، آپ کا سیریس ہونا ہی تو خطرے کی علامت ہے“۔۔۔۔
ان کی بات سن کر وہ تھوڑا خجل سا ہوا لیکن پھر ڈھیٹ پن سے مسکراتے ان کو بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا۔
💙💙
الیکزینڈر کو آفس بھیج کر ، وہ سیدھا امانی ملک کے ہسپتال آئے تھے۔ باہر ریسیپشن سے اپوائنٹمنٹ لے کر اب پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ باہر ویٹنگ میں موجود ان کے فری ہونے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔۔ دس سے پندرہ اور پندرہ سے بیس منٹ چکے ، اور اب جا کر کہیں ان کا نمبر آیا۔
کوٹ درست کرتے اپنی شاہانہ شان چال کے ساتھ چلتے کروفر سے اندر داخل ہوئے، جہاں امانی ملک ٹیبل پر جھکی کچھ لکھ رہی تھی۔
“ہممم…” اس نے گلا کھنکھارا تاکہ امانی ملک کی توجہ حاصل کر سکے۔
امانی ملک نے سر اُٹھایا، اور اس کی نظریں براہِ راست کائد غزنوی کے چہرے پر جاکر رکی۔ کچھ لمحے وہ بے خبری میں اُسے دیکھتی رہیں، پھر ان کی آنکھوں میں حیرت اور کچھ نہ سمجھنے کی کیفیت طاری ہوئی۔ کائد غزنوی کی شخصیت ، ان کا لباس ، ان کے وقار کا ایک منفرد تاثر تھا۔
“آپ یہاں؟ خیریت سے؟” امانی ملک نے حیرانی سے سوال کیا اور پین کو سائیڈ پر رکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
کائد نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر جواب دیا۔ “اجازت ہو تو بیٹھ جاوں؟”
“نہیں۔۔۔” امانی ملک کا جواب مختصر اور تقریباً بے پرواہ تھا، جیسے اس کا دماغ کچھ اور سوچ رہا ہو۔
کائد کا چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ نے رقص کیا، “اوکے، شکریہ۔۔۔” کندھے اچکا کر کہتے بے پرواہ انداز میں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے اور جیب سے ایک اینولیپ نکال کر ٹیبل پر رکھا جسے امانی نے نا سمجھی کے عالم میں دیکھا۔
”یہ آپکی امانت ، اس دن آپ نے میری مدد کی اس کا بہت شکریہ“۔۔۔
ان کی بات سن وہ سر جھکا کر ہلکا سا مسکرا دی پھر آنکھوں میں یکدم سنجیدگی سموئے ان کی کرسٹل آنکھوں میں دیکھتے گویا ہوئی۔
“مدد کر کے اس کا بدلہ واپس لینا میرے اصولوں کے خلاف ہے، اس لئے اپنا یہ اینولیپ واپس لے جائیں۔۔۔” اس نے آہستہ سے کہا، جیسے ایک اہم فیصلہ کیا ہو۔
کائد نے ہنس کر جواب دیا، “آپ کے اصول میں سمجھ سکتا ہوں ، مگر کچھ اصول میرے بھی ہیں“۔۔۔ وہ کچھ پل کے لئے ٹھہرے تھے۔
امانی ملک نے سر اُٹھایا اور اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی دوڑ گئی، جیسے وہ جاننا چاہ رہی ہو کہ یہ شخص کس طرح کے اصولوں کی بات کر رہا ہے۔
”مجھے کسی کا مقروض رہنا پسند نہیں“۔
کائد کی آواز میں نرمی تھی، مگر اس کے الفاظ میں ایک مضبوط عزت کا تاثر تھا۔
“آپ کا نظریہ بہت مختلف ہے۔” امانی ملک نے آہستہ سے جواب دیا، پھر دونوں کے درمیان سکوت چھا گیا تھا، اور یہ خاموشی ایک عجیب سا وزن لیے ہوئے تھی۔ کائد کی نظریں امانی ملک پر مرکوز تھیں، اور امانی ملک بھی اپنی آنکھوں سے کوئی جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی نظریں ہمیشہ کی طرح پُرعزم تھیں، مگر اس میں ایک نئی نوعیت کی سوچ اور گہری بے چینی تھی جو ان لمحات میں بے آواز محسوس ہو رہی تھی۔
“آپ کافی گہرے آدمی ہیں، کائد…” امانی ملک نے بالآخر خاموشی توڑی اور اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آواز میں کچھ جلن تھی، جیسے وہ اسے مکمل طور پر سمجھنا چاہ رہی ہو، مگر پھر بھی کچھ ہچکچاہٹ محسوس ہو۔
“شاید۔۔۔ سرسری سے انداز میں کہتے وہ کرسی سے کھڑے ہوئے اور دوبارہ گویا ہوئے۔۔۔۔” یا پھر میں صرف وہ نظر آتا ہوں جو میں نہیں ہوں،” اس کے لہجے میں ایک پیچیدہ سا لمس تھا۔
امانی ملک نے ایک لمحے کے لیے سر جھکایا، پھر نظر اٹھا کر اسے دیکھا جہاں کائد غزنوی دروازے سے باہر کی جانب بڑھتے دکھائی دیے۔
🤌❤