آج ایک اور نیا سورج طلوع ہوا تھا۔
ایک نئی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تھی جس کی وجہ اُس کی آنکھ کھل گئی۔
ارحاب کی آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر اپنی باہوں میں سوئی اس معصوم حسینہ پر گئی تھی۔
اچانک سے ارحاب کو کل رات یاد آگئی جس کی وجہ سے وہ اتنے سالوں بعد مسکرایا تھا۔
چہرے پر آنکھوں کی تپش محسوس ہونے پر انابیہ نے آنکھ کھولی۔
انابیہ نے سر اٹھاکر ارحاب کی جانب دیکھا ان دونوں کی نظریں ملنے پر انابیہ نے چہرہ جلدی سے اس کے سینے میں چھپالیا۔
“سوری۔” ارحاب نے شرمندہ ہوتے بات شروع کی۔
“کس لیے؟” انابیہ کی آواز رونے کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔
“کل کے لیے اور رات کے لیے بھی۔”ارحاب نے اس کے بال چہرے سے ہٹاتے کہا۔
“رات کے لیے رہنے دیں لیکن کل کے لیے میں ایسی خالی سوری اسیپٹ نہیں کروں گی۔” انابیہ نے بھیگے لہجے میں کہا۔
“میں کبھی کبھی یوں جذباتی ہوجاتا ہوں۔” ارحاب نے جیسے اسے خود کی نئی بات بتائی تھی۔
“مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے آپ مجھ سے جب بھی ملے ہیں ایسے ہی ملے ہیں۔” انابیہ نے شکوہ کیا۔
“تم چڑجاتی ہو بہت جلد اس لیے جان بوجھ کر چڑانے میں مزہ آتا ہے۔” ارحاب نے مسکراتے اس کے شکوے کا جواب دیا۔
“بلال بھائی بھی بالکل ایسے کہا کرتے تھے۔” انابیہ کی آنکھوں کے آگے پچھلی یادیں آگئیں۔
“دیکھا کل رات بھی موڈ خراب کردیا تھا اور آج پھر سے وہی حرکتیں کررہی ہو۔” ارحاب نے بلال کے ذکر پر غصہ ہوتے کہا۔
“انسان ہوں مشین نہیں وہ سب میری زندگی کا حصہ ہے۔” انابیہ نے برا مناتے کہا۔
“کیا ایسا نہیں ہوسکتا کے تم کہہ دو فقط ارحاب حیدر شاہ تمہاری زندگی ہے۔” ارحاب نے جیسے اس سے فرمائش کی تھی۔
“رافع بھائی نے کہا تھا مرد ذات کی ایسی خواہش کبھی پوری مت کرنا۔” انابیہ نے یاد آنے پر پھر سے ذکر چھیڑ دیا۔
“آہ! یہ کیا تمیز ہے تم ان سب کا ذکر اب جان بوجھ کر رہی ہو۔” ارحاب اب واقعی ناراض ہوگیا۔
“میرے گھر میں کوئی بہن نہیں تھی مجھے جب سمجھ آئی میں نے اپنے ایک ایک قدم پر اپنے بھائیوں کی خوشی میرے گر جانے پر ان کی فکر دیکھی تھی، میرے پہلی بار بابا کہنے پر میرے بابا کے چہرے پر رونق آٸی تھی، میری ماں اور دادی ہر وقت مجھے دوسرے گھر جانے کے لیے گھرداری کے لیکچرز دیتی رہی ہیں۔” انابیہ نے اپنی زندگی مختصر اسے سنائی تھی۔
“ٹھیک۔” ارحاب کے انداز سے اس کی ناراضگی محسوس ہورہی تھی۔
“مجھے استعمال کرکے دوسروں کے کہنے پر چھوڑ تو نہیں دیں گے نا؟” انابیہ کی آواز بولتے بولتے رندھ گئی۔
ارحاب نے اس کے اتنے بڑے سوال پر اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں اسے ڈر دکھائی دیا۔
“کل رات تمہیں کیا محسوس ہوا؟” ارحاب نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
“کل۔۔مجھے لگا جیسے آپ کو ڈر تھا اگر ابھی اپنا نہیں بنایا تو کھودیں گے۔” انابیہ نے کل کو یاد کرتے جواب دیا۔
“یہی جواب ہے۔” ارحاب نے اس کی آنکھوں پر بوسا دیتے کہا۔
“بابا کی یاد آرہی ہے۔” انابیہ نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اپنی خواہش ظاہر کی۔
“کیوں؟” ارحاب نے بے تُکا سوال کیا۔
“کیونکہ وہ مجھ سے خاموش محبت کرتے ہیں۔” انابیہ کے لہجے میں محبت تھی۔
“خاموش محبت میں سمجھا نہیں؟” ارحاب نے ناسمجھی سے کہا۔
“میں جب چھوٹی تھی تب میں اپنی ہر نئی خواہش کا اظہار بابا سے کرتی تھی جس کو وہ پورا کرتے دیر نہیں لگاتے تھے لیکن پھر وقت بدل گیا میری کسی نئی خواہش جو خاندان کی روایات سے ہٹ کر ہوتی تھی اس کو پورا کرنے کے لیے میں نے میرے بھائی کو لڑتے دیکھا، پھر ہر اس رات مجھے نیند نہیں آتی تھی جس دن میں کوئی خواہش کرتی تھی اس لیے ایک رات میں بابا کے اسٹڈی روم میں جارہی تھی لیکن پتا ہے پھر میں نے دیکھا میرے بابا رو رہے تھے، پھر ایسا ہر بار ہوتا رہا اس لیے میں نے بابا کے بجائے بھائی سے خواہشات کا اظہار کرنا شروع کیا کیونکہ مجھے تکلیف ہوتی تھی بابا کبھی مجھے وہ راز نہ بتاتے اور خود تکلیف میں رہتے اس لیے میں ان کی خاموش محبت سے خوش ہونا شروع ہوگئی۔” انابیہ نے پہلی بار کسی کو اپنا راز بتایا تھا۔
“بابا ایسے بھی محبت کرتے ہیں۔” ارحاب کے لہجے میں حسرت تھی۔
دروازے کے بجنے پر وہ دونوں سوچ سے باہر نکلے تھے۔
“جی؟” ارحاب نے جواب دیا۔
“ارحاب دروازہ کھولو جلدی سے۔” رائنہ بیگم کی آواز میں ڈر تھا۔
ارحاب نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تھا جہاں رائنہ بیگم اڑے ہوئے رنگ کے ساتھ کھڑی تھیں۔
“خیریت ہے؟” ارحاب اُن کی صورت دیکھ کچھ کچھ سمجھ گیا تھا۔
“اماں۔۔اماں سائیں آئی ہیں اور اُنہیں پتا چل گیا ہے کے انابیہ تمہارے کمرے میں سوتی ہے۔” رائنہ بیگم نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔
رائنہ بیگم کی نظر انابیہ پر پڑی تھی جس نے اُنہیں مزید فکر میں ڈال دیا تھا۔
“ارحاب۔۔ارحاب اماں غصہ ہوجائیں گی یہ تم نے کیا کردیا۔” رائنہ بیگم بالکل رو ہی پڑیں تھیں۔
“ماں میں ہوں نا سب کچھ سنبھال لوں گا۔” ارحاب نے رائنہ بیگم کو سینے سے لگاتے تسلی دی۔
“انابیہ اُٹھ کر تیار ہوجاٶ۔” ارحاب انابیہ سے مخاطب ہوا۔
“تیار؟ میں سمجھی نہیں۔” انابیہ نے ہونقوں کی طرح اس کی بات پر کہا۔
“اماں پلیز اب اِسے سب کچھ سمجھائیں میں تب تک نہاکر نیچے سنبھالتا ہوں۔” ارحاب انابیہ کی بات پر غصہ ہوتے رائنہ بیگم سے کہتا وہ واشروم میں گھس گیا۔
شاہ حویلی میں اس وقت صوفیہ بیگم نے شور مچایا ہوا تھا۔
“السلام علیکم دادی جان۔” ارحاب نے سیڑیوں سے اُترتے ہوئے انہیں دور سے ہی سلام کرکے اپنی طرف متوجہ کیا۔
“وعلیکم السلام!” صوفیہ بیگم نے ناراض انداز میں جواب دیا۔
“خیریت ہے آج منھ پھیر کر جواب دے رہی ہیں۔” ارحاب نے انہیں منھ پھیرے دیکھ کہا۔
“تم نے ہماری عزت نہیں رکھی۔” صوفیہ بیگم نے شکوہ کیا۔
“توبہ ہے ایسی باتیں کرکے مجھے شرمندہ تو مت کریں۔” ارحاب نے اُن کا ہاتھ چوم کر کہا۔
“اس کا حسن دیکھ تم بھی باقی مردوں کی طرح پھسل گئے نا۔” صوفیہ بیگم نے طنز کا تیر چلایا تھا جو سیڑیوں سے آتی انابیہ کے کانوں تک بھی پہنچا تھا۔
“وہ بیوی ہے میری ہمارے کمرے کی باتیں میں دوسرے کم ظرف مردوں کی طرح یوں بھری محفل میں کرنا پسند نہیں کرتا۔” ارحاب نے بھی اُنہیں دو ٹوک جواب دیا تھا۔
“اب تم اس ونی میں آئی لڑکی کے لیے ہم سے لڑوگے۔” صوفیہ بیگم اس کے لہجے پر غصہ ہوگئیں۔
“وہ میرے نکاح میں ہے اس کی اہمیت اس گھر کی باقی عورتوں سے بھی بڑھ کر ہے۔” ارحاب نے اُنہیں یکدم ہی ایسا جواب دیا تھا جس پر وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں۔
چائے لاتی ناز کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے تھے جس پر وہ اپنے آنسوں پیتی وہ چائے کی ٹرے آکر ارحاب کے آگے میز پر رکھ دی۔
“ناز کیسی ہو؟” ارحاب نے ناز کی حالت دیکھ اس سے پوچھا۔
“ارحاب بھائی میں ٹھیک ہوں۔” ناز نے بمشکل اپنے آنسوں پی کر اسے جواب دیا۔
“ماں انابیہ کو لے آئیں وہاں کھڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔” ارحاب نے اُنہیں آتے ہوئے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔
رائنہ بیگم بمشکل انابیہ کو سمجھاکر نیچے لے آئیں۔
انابیہ کو دیکھ صوفیہ بیگم اور ناز کو اپنی ہار محسوس ہوئی تھی۔
Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Episode 10

Pages: 1 2