وہ دروازہ بجا بجا کر تھک چکیں تھیں- چیخ چیخ کر گلا بھی خوش ہو چکا تھا- اب تو ان کی ہمت بھی ڈھے سی گئی تھی پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اس کمرے میں بند تھیں- سارے معاملات کو نمٹانے کے لیے گھنٹہ بھر بہت تھا- وہ نازک سی لڑکی کب تک خود کے لیے کھڑی رہی ہو گی؟ اتنے ظالم سفاک لوگوں کے آگے اس کی کہاں تک چل سکتی تھی- بختاور کا رونا اب بھی مسلسل جاری تھا- فروزہ کو اس کی حالت دیکھ کر بھی خوب ترس آ رہا تھا- بچپن سے اس نے ماں بن کے مرجینہ کو سینے لگائے رکھا تھا- چند دن کی مرجینہ ان کے حوالے کی گئی تھی تب سے اب تک سب کچھ اس نے ہی کیا تھا- علی مراد نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نا کی تھی آج جب مشکل گھڑی آئی تو فوراً سے اپنی اولاد قبول کرتے انہوں نے بختاور کو دودھ میں سے مکھی کی طرح مرجینہ سے دور کر دیا تھا-