ابھی وہ افسردگی سے سوچ ہی رہی تھیں جب ملازمہ نے آ کے درواز کھول دیا – وہ سرعت سے اٹھیں ملازمہ کو سختی گھورتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں- بختاور بھی حواس باختگی سی سر پٹ اٹھتی ان کے پیچھے چل پڑی- ان کا رخ ڈرائنگ روم کی طرف تھا-
ڈرائنگ روم میں بیٹھی مہرماہ اور بھابھی بیگم نے انہیں آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا- وہ دونوں اپنی باتوں میں مصروف تھیں- اندر داخل ہوتے ہوئے وہ مرجینہ کا نام سن کر ٹھٹھک کر رک گئیں تھیں-
”شُکر ہے مرجینہ نامی آفت سے جان چھٹی- اٹھارہ سال سے میری زندگی حرام ہوئی پڑی تھی- کیا بھروسہ تھا کب تمھارے باپ کا اس کم ذات کے لیے دل پگھل جاتا آخر کو اولاد تھی-“ نخوت سے کہتی حسنہ بیگم نے سکون سے صوفے پر بیٹھ گئیں-
” صرف آپ کے سر سے آفت ہی نہیں ٹلی ، ادا سائیں کی جان بخشی بھی ہو گئی، اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار! اس سارے معاملے میں میری کارکردگی قابل تعریف ہے- آپ تو ہمیشہ ہی مجھے مرجینہ سے دور رہنے کا کہتی تھی- دیکھ لیں مجھے، کیسے وقت آنے پر میں نے اس دوستی کا صیح استعمال کیا ہے-“ صوفے پر نیم دراز مہرماہ نے اپنے کارناموں کو خود ہی سراہا تھا-
”یہ تو ہے- میری بیٹی ہے بہت عقل مند!“ ماں کی داد وصول کرتے مہرماہ کا چوڑا سینہ تھوڑا اور چوڑا ہو گیا تھا-
”واقعی مہرماہ تم نے ایسا پانسہ پلٹا ہے کہ ہاری ہوئی بازی جیتا دی – میں تو حیران ہی رہ گئی تھی جب تم نے مرجینہ کا نام لیا تھا-“ حسنہ بیگم بیٹی کے کارنامے پر صدقے واری جا رہی تھیں-
”اماں سائیں اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار! بہزاد کا خوف بھی ختم اور مرجینہ سے بھی جان چھوٹ گئی- ہوشیار ہو تو میرے جیسا، میں نے اس وقت عقل استعمال کی ہے جب بہزاد نامی ننگی تلوار میرے سر پر لٹک رہی تھی-“ اس کے ایک کے بعد ایک انکشاف پر فروزہ بیگم کو سر پر چھت گرتی محسوس ہوئی تھی- وہ بیس سالہ شاطر دماغ مہرماہ کو حیرت سے دیکھے گئی- اگلے ہی پل حیرت کی جگہ غصے نے لے لی تھی انہوں نے ادھ کھلے دروازے کو زور سے دھکا دیتے ان دونوں کو ہوش دلایا تھا- وہ دونوں بے ساختہ پلٹ کر ان کی جانب متوجہ ہوئیں-
”شرم تو نہیں آرہی ہو گی آپ دونوں کو ایک بے قصور لڑکی پر اتنا ظلم کر کے ، بھابھی بیگم ساری زندگی اس کی حق تلفی کرتے آپ کا دل نہیں بھرا تھا جو یہ ظلم بھی کر ڈالا-“ فروزہ بیگم برہمی سے کہتی اندر داخل ہوئی تھیں- دونوں ماں بیٹی کے چہرے پر دنیا جہان کی بیزاریت آ سمائی تھی-
”فروزہ تم ہمارے معاملات سے دور رہو-“ حسنہ بھاھی کا انداز سرد تھا-
”کیوں درو رہوں ، میں بھی اس حویلی کا حصہ ہوں- میری آنکھوں کے سامنے زیادتی ہوتے میں نہیں دیکھ سکتی-“ فروزہ چچی درشتگی سے بولیں-
”مہرماہ! تم تو خود کو اس کا دوست کہتی تھی ناں تمھیں بھی زرا ترس نہیں آیا اس پر؟ ایسے دوست ہوتے ہیں-“ ان کے لہجے میں شکایت تھی- مہرماہ کی اس معاملے میں بھرپور شراکت جان کر انہیں حد درجے دکھ ہوا تھا- مہرماہ تو ہمیشہ ہی مرجینہ کے ساتھ اچھا سلوک کرتے دیکھی گئی تھی- کب وہ اس حد تک گر گئی انہیں سمجھ نا آیا-
”اُف چچی جان! کیسا ترس ، کونسی رحم دلی؟ میں نے تو اس بیچاری کا بھلا کیا ہے- دیکھیں نا اب ساری زندگی اس دو ٹکے کی ملازمہ کے ساتھ رہ کر اسے کون سا سُکون نصیب ہوا ہوگا؟“ مہرماہ کا اشارہ بختاور کی طرف تھا-
”مانا کہ بہزاد ملک بابا سائیں کا ہم عمر ہے لیکن آپ یہ تو دیکھیں کتنا پیسہ ہے اس بڈھے کے پاس ، ایک بیٹی سے سوا کوئی اولاد بھی نہیں ہے ،راج کرے گی مرجینہ وہاں-“ اس کا سُکون قابلِ دید تھا- فروزہ بیگم کو یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا-
”یہ سب تمھارے ساتھ ہوتا تب بھی تم یہی سب کہتی؟“ فروزہ بیگم نے اچھنبے سے اس کا سکون دیکھا تھا-
” تمھارے منہ میں خاک فروزہ! اللہ نا کرے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کچھ ہو- یہ تو اللہ کا کرم ہے اس نے میرے دونوں بچوں کا بچا لیا تم تو ہر وقت بد دعائیں دینے چلی آتی ہو- کتنی حسدی ہو؟ ہر وقت ہماری خوشیوں کو غارت کرنے پر تلی ہوتی ہو-“ حسنہ بیگم بھنا کر بولیں-
”واہ بھابھی بیگم واہ! آپ پر اللہ کا کرم اور مرجینہ پر اللہ کا عذاب؟ خدا کے فیصلوں کی تقسیم بھی اب آپ نے شروع کر دی؟“ انہیں حیرت ہوئی کس طرح لوگ اپنے آپ پر خدا کی ڈھیل کو اس کا کرم اور دوسروں پر آئی اس آزمائش کو عذاب کا نام دے دیتے ہیں-
” بلکل! یہ اس کی ماں کے اعمالوں کا بدلہ ہے جو اس پر عذاب کی صورت نازل ہوا ہے- والدین کا بویا اولاد کو ہی کاٹنا پڑتا ہے-“ حسنہ بیگم کی بات پر وہ تاسف سے مسکرائیں-
”بھابھی بیگم! مجھے آپ سے حسد نہیں بلکہ ترس آ رہا ہے- جس خدا کا ابھی آپ لوگوں پر کرم چل رہا ہے ناں جب وہ مہربان رب انصاف کرنے پر آئے گا تب آپ کہاں جا کر چھپیں گی؟ مت بھولیے وہ سب دیکھ رہا ہے ، اس کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں!“ فروزہ بیگم نے انہیں خدا کا خوف دلایا تھا-
”چچی سائیں! آپ کیوں اتنا پھڑپھڑا رہی ہیں؟ کیا مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ ، کیوں ہمارے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانا آپ نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے؟“ فروزہ چچی کی حق گوئی پر مہرماہ کا پارہ یکدم ہی چڑھ گیا تھا-
”تمھیں بات کرنے کی بھی تمیز نہیں رہی مہرماہ!“ ان کے لہجے میں بے یقینی تھی-
”ہاں نہیں رہی تمیز ، آپ کے منہ سے کونسا پھول جھڑ رہے ہیں جو میں آپ سے تمیز سے بات کروں؟“ وہ تنک کر گویا ہوئی-
”تم بہت بدتمیز ہو-“ چچی جان کی حیرت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا-
”بدتمیز نہیں ، میں رج کے بد تمیز ہوں پتا چل گیا ناں آپ کو؟ اب جائیں یہاں سے- اپنی شکل گم کریں-“ اس نے چیخ کر ہاتھ کے اشارے سے انہیں باہر کا راستہ دکھایا تھا- اپنی تذلیل پر لال بھبھوکا چہرہ لیے وہ جھٹکے سے ڈرائنگ روم سے نکلتی چلی گئیں-
”اوہ بی بی! تم کہاں چل دی؟“ بختاور کو فروزہ کا تعاقب کرتے حسنہ بیگم نے روکا تھا-
”کھیل ختم ہوچکا ہے، باقی کا سوگ تنہائی میں منانا! جاؤ دفعہ ہو میرے لیے چائے اور سر درد کی گولی لے کر آؤ-“ انہوں نے تنفر سے حکم صادر کیا تھا- بختاور خاموشی سے نکل گئی-
”فضول کی بحث سے سر درد کر دیا-“غصے سے دندناتی وہ دوبارہ صوفے پر جا بیٹھیں-
”اماں یہ سب تمھاری نا اہلی ہے- چچا سائیں کے مرتے انہیں گھر سے کیوں نہیں چلتا کیا؟ اب دیکھیں کیسے ہمارے سینے پر مونگ دل رہی ہیں-“ مہرماہ ہنکار بھرتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی-
” مجھے کوئی شوق نہیں تھا اسے ساتھ رکھنے کا، تمھارے باپ کا بھائی کی بیوہ اور بھتیجے پر دل پسیج گیا تھا-“ حسنہ بیگم سکون کے لیے صوفے پر سر گرا کر آنکھیں موند گئیں-
🌼°°°°°°°°°°🌼