”بابا سائیں! آپ ہوش میں تو ہیں؟“ علی مراد کا فیصلہ جانتے مہرماہ چیخ پڑی تھی-
”میں نے کوئی انوکھی بات تو نہیں ، ونی کی روایات کوئی نئی تو نہیں ہے-“ ان کی طمانیت پر مہرماہ کے ساتھ حسنہ بیگم بھی حیران ہوئی تھیں-
”جو بھی ہو بابا سائیں میں اس بڈھے سے نکاح نہیں کروں گی-“ وہ قطعیت سے انکار کر گئی تھی-
”سبطین کو بچانے کے لیے ہمیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی ہو گا!“ وہ بے بس دکھائی دے رہے تھے-
”بابا سائیں! میں آپ کی بات نہیں مانوں گی- آپ نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں ۔۔۔۔ میں گھر سے بھاگ جاؤں گی!“ مہرماہ نے آخری حربہ استعمال کیا تھا- علی مراد کو اس کی آنکھوں میں بغاوت صاف دکھائی دی
”مہرماہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گی! ہم فیصلہ کر چکے ہیں کل بہزاد کے ساتھ تمھارا نکاح ہے- آ گے میں کوئی بحث نہیں چاہتا-“ وہ برہمی سے بولے-
”مہرو سمجھنے کی کوشش کرو ، اپنے ادا کے لیے تمھیں یہ قربانی دینے پڑے گی میری بچی!“ حسنہ بیگم نے بھی شوہر کی تائید کی تھی-
”ادا سائیں کو بھگانے کے لیے پوری دنیا میں بہزاد کی بیٹی ہی ملی تھی؟ بابا سائیں میں نہیں کروں گی نکاح!“ وہ جنھجنھلا کر رونے لگی تھی-
”بیگم سائیں کھانا لگا دیا ہے-“ مرجینہ اسی وقت انہیں کھانے کی اطلاع دینے آئی تھی- اسے واپس جاتے دیکھ مہرماہ کی آنکھیں چمکی تھیں- وہ لمحے میں رونا دھونا سب بھول گئی تھی-
”بابا سائیں ادا کی جان بخشی کے لیے ونی کرنا لازمی ہے؟“ اس نے یقین دہانی کے لیے پوچھا تھا-
”ہاں ابھی تو بتایا ہے-“ ان دونوں میاں بیوی کو اس کی یاداشت پر شبہ ہوا تھا-
”ہمم! آپ مرجینہ کو ونی کر دیں-“ اس نے جتنی آرام سے یہ بات کہی تھی وہ دونوں ہی ہونق چہرہ لیے وضاحت طلب نظروں سے اسے دیکھے گئے-
”مرجینہ بھی تو آپ کی اولاد ہے بابا سائیں! وہ ونی میں جائے یا میں ادا کی جان تو بچ جائے گی-“ اس نے اپنی بات کی خود ہی وضاحت کر دی تھی-
”لیکن؟“ علی مراد کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ حسنہ بیگم نے درشتگی سےان کی بات کاٹی تھی-
” لیکن کیا؟ مہرماہ کا مشورہ سو فیصد درست ہے- آپ کیوں اتنا سوچ رہے ہیں- آپ نے کون سا اُسے اپنی اولاد مانا ہے جو فیصلہ لینے میں اتنی تکلیف ہو رہی ہے؟“ حسنہ بیگم نے مشکوک نگاہ ان کے پر سوچ چہرے پر ڈالی تھی-
”مجھے فیصلہ لینے کوئی تکلیف نہیں ہے- تکلیف ہونی ہوتی تو اس وقت ہوتی جب وہ پیدا ہوئی ، یا پھر تب جب اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا تھا- میری ایک معمولی سی خطا کو تم نے گناہ بنا کر رکھ دیا ہے-“ ان کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا-
” جگہ جگہ منہ مار کر یہ موقع آپ نے ہی فراہم کیا ہے سائیں جی!“ ان کے ذہن میں ماضی کی تلخیاں پھر سے عود آئی تھی- جس کے جوہر زبان نے بخوبی سر انجام دیے تھے-
”حسنہ! اب تم حد سے بڑھ رہی-“ بیٹی کے سامنے بیوی کے منہ تحقیر آمیز جملے نکلنے پر ان کی مردانہ انا کو ٹھیس پہنچی تھی- ان دونوں کو دیکھتے مہرماہ کے چہرے پر دنیا جہان کی بیزاریت چھا گئی تھی-
” خدا کا واسطہ ہے! اب آپ دونوں اپنی جنگ مت چھیڑیے گا؟ جو مصیبت سر پر نازل ہے اس سے نمٹنے پر غور کیجئے- آپ کی ذاتی ماہا بھارت بعد میں بھی ہو سکتی ہے-“ مہرماہ کی مداخلت پر وہ دونوں ہی چہرہ موڑتے خاموشی اختیار کر گئے تھے-
🌼°°°°°°°°°°🌼
باقی اگلی قسط میں ان شاء اللٌٰه