وہ افسردہ سی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی آج کے معاملے پر غور کر رہی تھیں-
”ادا سائیں! آپ یہ ظلم نہیں کر سکتے-“ وہ غضب ناک تیور لیے ان کے سامنے حاضر ہوئیں تھیں-
”فروزہ تم ہمارے معاملات سے دور رہو- ہم فیصلہ کر چکے ہیں-“ علی مراد نے سرد لہجے میں جواب دیا تھا-
”آپ مرجینہ کا فیصلہ خود سے نہیں کر سکتے-“ وہ دبا دبا سا غرائیں تھیں-
”ہم سب کر سکتے ہیں!“ ان کے لہجے میں چھلکتے غرور پر لمحے بھر کو وہ خاموش ہو گئی تھیں-
” آپ نے کبھی اسے اپنی اولاد مانا ہی نہیں تو پھر حق کیسا؟“ وہ بحث پر اتر آئیں تھیں-
”یہ تمھارا مسئلہ نہیں-“ وہ تنک کر بولے فروزہ کو ان کی خود غرضی پر نفرت محسوس ہوئی تھی-
”لیکن وہ محتشم کی منگ ہے!“ انہوں نے احتجاجاً علی مراد کو یاد دلایا تھا-
” یہ صرف تمھارا فیصلہ ہے- جس کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے-“ ان کے جملوں نے گویا فروزہ کے منہ پر طمانچہ مارا تھا- وہ انہیں ان کی حیثیت بتا گئے تھے جو کڑوی ہی سہی پر حقیقت تھی-
علی نواب کی موت کے بعد سے ان کی اس گھر میں حیثیت ہی کیا تھی؟ ایک غیر ضرورت اشیاء کی، جسے کونے میں ڈال کر چھوڑ دیا جاتا ہے-
بھابھی بیگم تو اول روز سے ہی انہیں ناپسند کرتی تھیں جس کا اظہار وہ وقفے وقفے سے کرتی رہتی تھیں- اب تو انہوں نے مہرماہ کو بھی ساتھ لگا لیا تھا- آج مہرماہ کی بےجا ہٹ دھرمی پر ان کا بہت دل دکھا تھا لیکن اس بات سے زیادہ افسوس انہیں اپنے وعدے کا تھا جسے وہ نبھا نہیں سکی تھیں- سوچ سوچ کر ان کا دماغ پھٹنے والا ہو رہا تھا-
فون کی بجتی گھنٹی نے ان کی سوچوں کا تسلسل توڑا تھا- انہوں سے سر جھٹکتے سائیڈ ٹیبل پر رکھے فون پر نگاہ ڈالی- اسکرین پر چمکتا محتشم کا نام دیکھتے وہ اگلے ہی پل کال ریسیو کر کے کان سے لگا گئی تھیں-
”کہاں تھیں آپ، فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں؟“ اسپیکر پر اس پریشان سی لبریز آواز اپر انہوں نے گہری سانس کھینچی تھی-
”مصرف تھی-“ نپے تلے انداز میں کہہ کر انہوں نے جیسے اپنی جان چھڑانی چاہی تھی- دوسری طرف ان کی بات پر محتشم کے ماتھے پر شکنیں ابھری تھی-
”آپ کو اندازہ ہے میں کتنا پریشان ہو گیا تھا؟ تایا سائیں بھی فون بند کر کے بیٹھے ہیں-“ وہ ناراضگی سے بولا- اب کی بار انہیں اس کی پریشانی کی وجہ سمجھ آ گئی تھی-
”ماں! آپ اتنی خاموش کیوں ہیں- سب خیریت تو ہے؟“ ان کی خاموشی پر وہ بے چین ہوا تھا-
”میں اپنا وعدہ نہیں نبھا سکی- قیامت کے روز تمھارے بابا اور اس کی ماں کو کیا منہ دکھاؤں گی-“ وہ رو پڑیں تھیں- کب سے باندھا ہوا ضبط ٹوٹ گیا تھا- جو لوگ وعدے کی اہمیت سے واقف ہوں وہ اسے پورا نا کر پانے پر ایسے ہی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں- انہیں بھی یہ ملال کب سے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا-
”ماں آپ رو کیوں رہی ہیں، کیا ہوا ہے؟“ ان کی رونے پر اسے سہی معنوں میں پریشانی نے آن گھیرا تھا-
”مجھے معاف کر دو محتشم! میں تمھاری امانت کی حفاظت نہیں کر سکی-“ اب ان کے لہجے میں شرمندگی کا شائبہ بھی محسوس ہونے لگا تھا-
”ماں پلیز رونا بند کریں مجھے بتائیں بات کیا ہے؟“ اسے کسی انہونی کا احساس ہونے لگا تھا-
”ماں پلیز کچھ تو بولیں مجھے آپ کی خاموشی سے خوف آرہا ہے-“ اس کے مسلسل استفسار پر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں جو دلدوزہ خبر سنائی تھی محتشم کو ان کی خاموشی زیادہ بھلی لگی تھی-
”تمھارے تایا سائیں نے مرجینہ کو ونی میں دے دیا-“ ان کے الفاظ تھے یا بم؟ محتشم کو لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے کر بےدردی سے مسلسل کر رکھ دیا ہو- اسے لگا دنیا سے آکسیجن ہی ختم ہو گئی ہے وہ اب سانس ہی نہیں لے سکے گا-
”ی۔۔۔یہ اااآ۔آپ کیا کہہ رہی ہیں؟“ بے یقینی سے پوچھا گیا تھا- اس کی لڑکھڑاتی آواز نے ان کا دل کاٹ کے رکھ دیا تھا- انہوں بنا تمہید باندھے آج کا سارا واقع اس کے گوش گزار دیا-
”تایا سائیں ایسا نہیں کر سکتے!“ وہ غصے کی زیادتی سے چیخ اٹھا تھا-
”وہ ایسا کر چکے ہیں- ل۔۔۔“ ان کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی دوسری طرف موت سا سکوت چھا گیا تھا-
🌼°°°°°°°°°°🌼