۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمپنی سے نکلنے کے بعد نظام صاحب یونہی بے مقصد سڑکوں پر گھم رہیں تھیں اور اُنہیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب دن سے شام اور شام سے رات ہو گئی اُنکی آنکھوں کے سامنے وہ سب کسی فلم کی طرح چل رہا تھا اُنکے بیوی بچے جب اُنہیں یہ سب پتا چلیگا تو وہ کیسے برداشت کرینگے اُنہیں پتا ہے وہ کسی بات کا یقین نہیں کرینگے پر یہ لوگ یہ دنیا یہ تو بہت ظالم ہے وہ تو اُنکے بچوں کو جیتی جی طعنے مار کر مار دیگی وہ ایک فراڈ باپ کے بچے کہلائے جائینگے اِس لئیے کیونکے وہ غریب جو ہیں اُنکے پاس دولت جو نہیں ہے یہ دنیا تو دولت والوں کی ہے اُنکی ہی عزت ہے اگر یہی سب کوئی دولت مند کرتا وہ تب بھی بدنام نا ہوتا کیونکہ اُس کے پاس پیسہ جو ہے اور اب یہ الزام ایک غریب پر لگا ہے جو کہ اُس نے کیا بھی نہیں ایک بے بنیاد الزام جس کو وہ ثابت بھی نہیں کرسکتا اُس کے پاس اُس کی عزت اور نیک نامی کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اور وہ بھی اُس سے چھین لی جائیگی اور یہ دنیا اور یہاں کے لوگ اپنے الفاظوں سے اُنکو چھلنی کردیتے ہیں اُنکو جیتے جی مار دیتے ہیں ۔ نظام صاحب کو بھی عنقریب یہ ہی سب ہوتا معلوم ہو رہا تھا آنکھوں سے آنسو بہے چلے جا رہے تھیں اور مستقبل قریب میں اپنے بچوں کا غم اُنہیں ستا رہا تھا کہ اچانک ہی وہ زمین پر گر پڑے اور اُنکی آنکھوں کے سامنے ماہ رُخ کا ہنستا چہرا آیا اور وہ آنکھیں جو کھلی تھی اب بند ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔