ماہ رُخ ڈاکٹر سبین کے ساتھ گھر جانے کے لئیےنکل ہی رہی تھی کہ اُس نے ایک ایمبولینس کو ایمرجنسی کے گیٹ پر رُکتے دیکھا ابھی وہ گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ اسٹریچر پر اُسکی نظر پڑی اور آنکھوں کی پُتلیاں ساکت ہوگئیں ماہ رُخ نے خود کو پہلے ایک قدم پیچھے لیتے محسوس کیا اور پھر ہی اچانک خود کو اندھا دھند بھاگتے ہوئے اُسکا دوپٹہ سرک کر شانوں پر آگرا اُسکے سیاہ آبشار جیسے بال دیکھنے لگے پر اُسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا سبین کی آواز بھی اُسکے بھاگتے قدم نہ روک سکے
ماہ رُخ
ماہ رُخ
سنو تو صحیح ہو ا کیا ہے
پر ماہ رُخ کے قدم اسٹریچر کے پاس جا کر روکے اور کانچ سی سنہری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک ریلا نکلتا چلا گیا۔۔
جاری ہے