صبح فجر کا وقت ہوچکا تھا اس سکوت بھری فضا میں کہیں دور مرغے کی بانگ سناںٔی دی تھی..صبح کا سورج نںٔے دن کی نوید سناتا دھیرے دھیرے طلوع ہونے لگا تھا سورج کی ہلکی سی کرن نمودار ہوتی آسمان پر پھیلتی بے حد دلکش نظارہ پیش کررہی تھی..
اس موسم گرما میں صبح کی ہلکی ہلکی چلتی ہوا روح کو بے حد مسحورکن سا احساس بخش رہی تھی… نمازی فجر کی نماز ادا کرکے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے..
انہیں چلتے ہوۓ تقریباً آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا..
مہروش تھکی تھکی سی اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھاتی چل رہی تھی اس کے چہرے پر تھکن کے اثرات واضح طور پر دکھاںٔی دے رہے تھے ..
تھوڑی دیر اور چلنے کے بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ کر کالے رنگ کے بڑے سے گیٹ کے سامنے آرکے.. خواجہ سرا نے چابی نکال کر گیٹ کے لاک میں گھساںٔی اور چابی گھماکر دروازہ دھکیل کر اسے اندر جانے کا اشارہ کرتا خود ساںٔیڈ پر کھڑا ہوگیا..
مہروش نے ایک نظر اس پر ڈالی جو اسی کی جانب دیکھ رہا تھا..وہ خود میں ہمت مجتمع کرتی گیٹ کے اندر قدم رکھ کر گھر کے اندر داخل ہوگئی…
پیچھے وہ بھی اندر داخل ہوکر دروازہ بند کرکے اس کی جانب مڑا جو ساکت کھڑی آنکھیں پھاڑے سامنے صحن میں موجود چھوٹے بڑے عمر کے خواجہ سراؤں کو اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں خوف سموۓ دیکھ رہی تھی..
وہاں پر موجود سب خواجہ سرا جو صبح کی نماز پڑھنے کے بعد ایکسرساںٔز کرنے میں لگے تھے مہروش کے اندر آنے پر وہ سب جیسے بت بن کر کھڑے ہوگئے…
مہروش نے اپنے نزدیک کھڑے خواجہ سرا کو گردن گھما کر سہمی سہمی نگاہوں سے دیکھا جو ایک نظر اس پر ڈال کر خواجہ سراؤں کی جانب متوجہ ہوگیا..
مومی کہاں ہے..
اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی جواب دیتا گھر کے اندر سے خاکی رنگ کی قمیض شلوار پہنے اپنے گرد چادر اوڑھے چمکیلی نمودار ہوئی جو تیز تیز قدم لیتی دل دل پکارتی مہروش کے زرا فاصلے پر کھڑے خواجہ سرا سے لپٹ گئی..
ہمارا دل ہمارا بچہ تو آگیا کہاں تھا تو یہ دو دن ہاں؟ پہلے تو بتاکر جاتا تھا اور اس بار ہمیں بنا بتاۓ چلا گیا ہمیں تمہاری کتنی فکر ہورہی تھی
دل نے اس کی ایک ہی سانس میں کہی بات پر خفگی سے رخ موڑا.. جیسے وہ اس سے خفا ہو..
چمکیلی دل کی اس انداز پر مسکراںٔی اور پھر آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوم کر جیسے ہی پیچھے ہٹی ان کی نظر مہروش پر جاپڑی جو چمکیلی کے وہاں آجانے سے دل کے پیچھے جا چھپی تھی…
چمکیلی نے سوالیہ نگاہوں سے دل کی جانب دیکھا
یہ بچی کون ہے ؟اور کہاں سے آئی ہے؟.
دل نے ان کی بات سن کر آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ انہیں بعد میں سب بتادے گا پھر گردن موڑ کر اپنی پشت کے پیچھے چھپی مہروش کو دھیرے سے پکارا..
سنو..
یہ ہماری مومی ہے ہماری ماں.. تم ان کے ساتھ اندر چلی جاؤ مومی تمہیں کمرے تک پہنچا دے گی جہاں تم فریش ہوکر تھوڑی دیر کے لںٔے آرام کرلینا..
دل کی بات پر اس نے بے اختیار اس کا بازو دبوچا..
نن نہیں میں آپ کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں جاؤں گی..
مہروش نے نفی میں سر ہلا کر دل کے بازو پر دباؤ بڑھایا.. کہیں دل زبردستی اسے مومی کے ساتھ روانہ نہ کردے گا..
ارے بیٹی ڈرو نہیں آپ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھو یہاں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی..
چمکیلی کے نرم لہجے پر مہروش نے انہیں ایک نظر دیکھا اور پھر سے دل کے پیچھے چھپ گںٔی..
دل سمجھ گیا کہ وہ اس کے علاوہ کسی کے ساتھ اندر جانے کے لئے راضی نہیں ہے تو مجبوراً اب اسے مہروش کو کمرے تک چھوڑ کر آنا تھا…
ٹھیک ہے آؤ ہم تمہیں کمرے تک چھوڑ آتے ہیں..
دل کے کہنے پر وہ اس کا ہاتھ تھام گئی اور اس کے ساتھ چپک کر چلتی ہوںٔی اندر کی جانب قدم بڑھانے لگی..
وہاں پر سبھی موجود خواجہ سرا منہ کھولے اس منظر کو دیکھے گئے دل ان سب کی خود پر جمی نگاہوں کو نظر انداز کرتا گھر کے اندر چلا گیا..
چمکیلی کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر ایک سترہ سال کے خواجہ سرا جس کا نام فیروز تھا اس نے انکے قریب کھڑے ہوکر سوال کیا ….
کیا دل بھیو ہمارے لئے بھابی لے کر آۓ ہیں..
چمکیلی اس کی بات پر ہنس پڑی.. مگر ان کے جواب دینے سے پہلے ہی دوسرے خواجہ سرا “جس کا نام نور تھا” اس نے راحیل کے سر پر چپت لگائی..
ابے او عقل کے اندھے کیا تم نے دیکھا نہیں کیسے وہ ہم سب سے ڈر کر دل بھیو کے پیچھے چھپ رہی تھی اور ان کے بغیر چمکیلی مومی کے ساتھ بھی کمرے تک جانا نہیں چاہ رہی تھی وہ یہاں کسی مجبوری کے تحت آئی ہے اور جلد یہاں سے چلی بھی جاۓ گی تو اسے اپنی بھابی بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے.. پاگل..
فیروز نے نور کو گھور کر دیکھا..
تھوڑی دیر کے لئے ٹھیک سے خوش بھی نہ ہونے دینا اتنا کہہ کر فیروز نے ہاتھوں کی پانچ انگلیاں اس کی جانب کیں اور تن فن کرتا منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اندر کی جانب بڑھ گیا..
چمکیلی کی مسکراہٹ دھیمی پڑ گئی کیونکہ دو دن پہلے ہی اس کی دل کے ساتھ اس بات پر بحث ہوئی تھی کہ وہ لڑکی پسند کرکے شادی کرلے لیکن وہ لڑکیوں سے سخت قسم الرجک تھا وہ چمکیلی کو صاف لفظوں میں انکار کرچکا تھا کہ وہ کھبی بھی کسی بھی لڑکی سےْ شادی نہیں کرے گا کیونکہ اس کے دل میں یہ ڈر تھا کہ اگر اس نے شادی کرلی اور اس کی بیوی نے آکر اسے سب خواجہ سراؤں سے دور کردیا تو وہ کیا کرے گا کیسے جیںٔے گا ان سب کے بغیر..خیر وہ چمکیلی اور باقی خواجہ سراؤں کو چھوڑ تو نہیں سکتا تھا لیکن اس لڑکی کو تو چھوڑ ضرور دیتا..
یہی سب سوچ کر وہ شادی نہ کرنے کی ٹھان چکا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کھبی کسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا تاکہ اس کی بھی زندگی خراب نہ ہو اور اس لڑکی کی بھی..
لیکن چمکیلی اس کے فیصلے سے ناخوش تھی وہ بار بار اسے لڑکی پسند کرنے کی ضد کرنے لگی تھی جس پر وہ غصے میں آکر ناراض ہوکر گھر ہی سے چلا گیا..