دل اسے کمرے میں چھوڑ کر جانے لگا تھا کہ مہروش نے اس کا ہاتھ تھام کر روک لیا..
دل نے گردن موڑ کر اس کے نرم و ملائم ہاتھوں میں دبے اپنے ہاتھ کو دیکھا تو مہروش نے خجل ہوکر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا..
سوری..
وہ مجھے یہاں اکیلے ڈر لگ رہا ہے..
اس نے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتے ہوۓ بتایا..
تم بے فکر ہوکر آرام کرو یہاں تمہارے کمرے میں کوئی نہیں آۓ گا..
وہ سپاٹ لہجے میں کہتا جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ مہروش کی آواز پر اسے رکنا پڑا..
وہ مجھے پوچھنا یہ تھا کہ کک کیا یہاں لڑکے بھی رہتے ہیں..
دل اس کے ڈر کو محسوس کرچکا تھا اس نے مڑ کر مہروش کی جانب دیکھا جو اپنے ہاتھ کا انگوٹھا دانتوں تلے دباۓ پریشان سی کھڑی تھی..
نہیں یہاں سب خواجہ سرا رہتے ہیں یہاں کوئی بھی مرد نہیں رہتا تم نے فکر ہوکر یہاں رہ سکتی ہو..
یہ کہتے ہوۓ دل کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی یعنی کہ اس نے سیدھا سیدھا خود کو بھی نامرد کہہ کر خواجہ سراؤں کی کیٹیگری میں شامل کرلیا تھا وہ بھی اس چھوٹی سی لڑکی کی خاطر تاکہ وہ بے فکر ہوکر بنا کسی ڈر کے اس کے گھر میں آرام سے رہ سکے..
مہروش نے اطمینان بھرا سانس لیا اور پھر ہلکا سا مسکراںٔی ..
دل اس پر ایک نگاہ ڈال کر کمرے سے باہر نکل آیا جہاں چمکیلی کھڑی دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے گھور رہی تھی..
تم نے خود کے لئے اسےخواجہ سرا کا حوالہ کیوں دیا ساگر..
دل نے گہری سانس بھری اور ان کا ہاتھ تھامے مہروش کے کمرے سے منسلک اپنے کمرے میں لے آیا..
کون ہے یہ بچی اور تم اسے یہاں کیوں لاۓ ہو..
ساگر چمکیلی کو بیڈ پر بیٹھا کر اس کے قدموں میں آبیٹھا..
یہ لڑکی اپنے گاؤں سے کراچی اپنی دوست کے گھر پہنچی تو اسے اس کی دوست کے گھر پر تالا لگا ملا جس کی وجہ نجانے کتنی دیر وہ اکیلی آدھی رات کو سنسان سڑک کے کنارے بینچ پر بیٹھی شاید اس کے لوٹ آنے کا انتظار کررہی تھی کہ کچھ لڑکوں نے اسے تنگ کرنا شروع کیا اور اس کی عزت کے پیچھے پڑگںٔے لیکن ہم نے وہاں بروقت پہنچ کر اسے اس لڑکوں سے بچالیا اور یہاں لے آۓ.. ساگر نے مختصر لفظوں میں انہیں ساری بات بتائی..
چمکیلی نے فخر سے اس کے چہرے پر محبت بھری نگاہ ڈالی..
تم نے بہت اچھا کیا کہ اس بچی کو یہاں لے آۓ
ہمیں تم پر ناز ہے دل..اور ہمیں تم پر پورا یقین ہے کہ تم کھبی بھی غلط کام نہیں کرو گے..
ساگر مبہم سا مسکراتا بیڈ پر چڑھ کر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا..
مومی ہم آپ کا مان بھروسہ کھبی نہیں توڑیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے آپ سے..
ساگر نے ان کا ہاتھ تھام کر اس پر بوسہ دیا. .
چلو تم فریش ہوجاؤ یہ کیا حلیہ بنارکھا ہے تم نے..
ساگر نے ہلکا سا ہنس کر ان کی جانب دیکھا..
مومی آپ کو پتہ تو ہے کہ ہم یہ حلیہ تب اپناتے ہیں جب ہمیں بہت ہی رازداری سے کوئی ضروری کام کرنا ہوتا ہے.. لیکن آج سے ہم صرف کمرے کے علاوہ آپ کو باہر گھر میں بھی اسی حلیے میں نظر آںٔیں گے..
چمکیلی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا..
سمجھی نہیں ہم سمجھاتے ہیں..کیونکہ جو لڑکی ہمارے ساتھ اس گھر میں رہنے آئی ہے اسے ڈر ہے کہ یہاں لڑکے بھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر آرام دہ محسوس کررہی تھی..
تھوڑی دیر پہلے ہم اسے سمجھا رہے تھے کہ یہاں کوئی بھی مرد نہیں رہتا وہ آرام سے اس گھر میں رہ سکتی ہے..
چمکیلی نے اس کے گال پر ہلکی سی چپت لگائی..
یہ تم اچھا نہیں کررہے اسے سچ بتادو کہ تم کوئی خواجہ سرا نہیں ہو..
نہیں نہیں ہم اسے تب تک نہیں بتا سکتے جب تک وہ اپنی دوست کے گھر چلی نہیں جاتی..
ہم نے اس کا ڈر و خوف نکالنے کے لئے ایسے کہا…
چمکیلی نے مسکرا کر اس کے بکھرتے بالوں کو سنوارا جو اس کے ویگ ہٹانے پر بکھر گئے تھے..
اچھا چل اب اٹھ کر نہا دھولے ہم ناشتہ بناکر آتے ہیں..
ساگر نے ان کی گود سے سر اٹھاکر بیڈ سے پاؤں نیچے اتار کر چپلیں پہنی اور بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوتا چمکیلی کے ہاتھ پر بوسہ دے کر فریش ہونے کے غرض سے واش روم کی جانب بڑھ گیا..