جیا لاؤنج میں رکھے ڈبل سیٹر صوفے پر براجمان بی جان کے شانے پر سر رکھے بیٹھی ہوئی
تھی جب اس نے سلمی بیگم کو پکارا..
پھوپھو یہ بدصورت حسینہ کہاں ہے کہیں نظر ہی نہیں آرہی..
حسینہ جو اس کے پیچھے کھڑی اس کے گلے میں اپنی باہوں کا ہار ڈالنے والی تھی جیا کے منہ سے اپنے نام کی بےحرمتی سن کر اس نے جیا کے کندھے پر زور سے چٹکی کاٹی..
آہہہ
جیا نے چیخ کر پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں حسینہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھور رہی تھی
کیا کہا تم نے..
وہی جو تم نے سنا..
جیا نے اپنا کندھا سہلاتے ہوۓ اسے برجستہ جواب دیا..
اچھااا اگر میں بدصورت حسینہ ہوں تو تم کیا ہو چھپکلی کی پونچھ…
جیا نے اس کے منہ سے اپنے لئے چھپکلی کی پونچھ سن کر صدمے سے منہ کھولے اسے دیکھے گئی…
تممم
اس سے پہلے جیا جوابی کارروائی کرتی..حسینہ نے یہ کہہ کر اس کی بولتی بند کرتی کہ تم نے پہلے میرا نام بگاڑا اب میں نے تمہارا حساب چکتا کردیا حساب برابر..
اور دھپ سے اس کے پاس صوفے پر بیٹھ کر اسے بازو سے پکڑکر اپنی جانب کھینچا اور کس کراسے اپنے گلے لگا گئی ..
بی جان اور سلمی بیگم ان دونوں کا پیار دیکھ کر ہولے سے مسکرا دیں..
تم کیسی ہو ٹھیک تو ہو ناں..
ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں تم کیسی ہو.. جیا حسینہ کی فکرمندی پر مسکرادی..
میں ایک دم مست.. حسینہ کے ایک آنکھ دبانے پر جیا کھکھلا کر ہنس پڑی..
اچھا چھوڑ مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے..
ہاں بھونک میرا مطلب ہے بول..
جیا کی گھوری پر حسینہ نے اپنا جملہ درست کیا..
یونیورسٹی میں ایک نںٔی لڑکی آئی ہے جو مجھے بالکل تمہارے جیسی لگی پر وہ تم نہیں تھی..
اگر تم بھی ان میں سے اک ہوتی تو میں تمہارے کندھے پہ سر رکھ کے سکون سے سو جاتی
کیونکہ اس وقت جتنی مجھے نیند آرہی تھی ناں میں بتا نہیں سکتی کاش تم ہوتی وہاں..
جیا نے کہتے ساتھ ہی اس کے کندھے پر سر رکھنا چاہا..
لیکن حسینہ منہ پھاڑ کر ہنستے ہوۓ اس سے اپنا کندھا دور کرتے ہوۓ بولی…
ابے مجھے گدگدی ہوتی ہے اس لیے پرے مر..
جیا نے اسے گھورا اور صوفے پر پڑا کشن اٹھا کر حسینہ کو اس سے مارنے لگی…
کمینیی جادفع ہو نہیں چاہئے مجھے تیرا بد بو دار کندھا..
جیا نے خفگی سے منہ موڑا لیکن حسینہ نے اس گرد اپنے بازو لپیٹ کر اپنے ساتھ لگایا.. اچھا ناں سوری..
جیا نے منہ پھلا کر اس مسخری کو دیکھا اور پھر دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس پڑی…
حسینہ بس بہت ہوا جیا کو اور تنگ مت کرو اسے کمرے میں جاکر آرام کرنے دو اور تم آؤ میرے ساتھ کچن میں میری ہیلپ کرنے..
اپنی ماں کی بات پر اس کا منہ بن گیا..
ایک تو کچن میں کام کرنے کے بھی الگ سو
مسئلے ہوتے ہیں جب بھی کسی کام کو کرنے کے لئے چلی جاؤں تو ککر مُجھے دیکھ کر سیٹی بجاتا ہے روٹیاں مُجھے دیکھ کر جل جاتی ہیں دہی کو الگ پراپر ٹریٹمنٹ نا دو توالگ روپ لے لیتا ہے بس چائے اور دودھ کو میری پرواہ ہے جن کو دو منٹ کے لئے چولہے پر اکیلا چھوڑ کر چلی جاؤ تو مجھے ڈھونڈھنے کے لئے پتیلی سے باہر آجاتی..
جیا تو اس کی لمبی تقریر صدمے سے منہ کھولے سن رہی تھی..جبکہ بی جان نے اپنی مسکراہٹ دباںٔی..
زرا بتانا پسند کرو گی..
کہ تم کب کچن میں کام کرنے کے لئے جاتی ہو تمہیں تو فریج سے اپنے لئے پانی کی بوتل نکالنے پر بھی موت پڑتی ہے مہینے مہینے تو تم کچن کی شکل دیکھتی نہیں پھر دودھ ابھالنا چاۓ بنانا تو دور کی بات ہے..بڑی آئی کچن کا کام کرنے والی کرہی نہ لو تم کچن کاکام..
یہ کہہ سلمی بیگم حسینہ کو گھورتی ہوئی کچن کی جانب بڑھ گئیں اور ڈھیٹوں کی سردارنی ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہی تھی..
گھر میں رہنا نہیں ہے اتنا آسان بس اتنا سمجھ لیجںٔے.. طعنوں کا ایک دریا ہے اور ہم نے بے شرمی سے پار کرکے جانا ہے..
اس نے جیا کو دیکھ کر آنکھ دباںٔی اور صوفے پرسے اٹھ کھڑی ہوتی سلمی بیگم کی ہیلپ کرنے کچن کی جانب چلی گئی ..
کیا چیز ہے یہ جیا نے گردن موڑ کر بی جان کو دیکھا جو اب کھل کر حسینہ کی حرکتوں پر ہنس رہی تھیں بی جان کو ہنستا ہوا دیکھ کر وہ بھی ہنسنے لگی کہ اچانک اس کی ہنسی کو بریک لگی..
جب اس کی نگاہ سامنے سیڑیوں سے اترتے عالمگیر پر پڑی وہ بلو کلر کی جینز پر سفید رنگ کی ٹی شرٹ پہنے بہت ہی جاذب نظر آرہا تھا اس کے آستینوں سے جھلکتے کسرتی بازو کسی بھی لڑکی کا دل دھڑکا سکتی تھی اس کی پرسنیلٹی ہی ایسی تھی کہ جو بھی لڑکی اسے دیکھتی تو دوسری نگاہ ڈالے بنا نہیں رہ سکتی تھی ہر دیکھنے والے کے نگاہ میں اس کے لئے ستائش ضرور ہوتی تھی.. بہت سی لڑکیاں اس پر مرتی تھی اور ان لڑکیوں کی لسٹ میں جیا کی کزن رومی بھی شامل تھی جو عالم پر جی جان سے فدا تھی لیکن صرف جیا ہی تھی جسے بچپن سے ہی عالم سے شدید نفرت تھی اور اس نفرت کی وجہ یہ تھی کہ بقول جیا کے عالم نے بچپن میں اس کے گھر آکر اس کے حصے کا پیار اس سے چھینا تھا جو کہ صرف و صرف جیا کا حق تھا.. لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا منصور صاحب بی جان جتنا جیا پر جان چھڑکتے تھے اتنا ہی عالم پر صدقے واری جاتے تھے وہ دونوں ہی جیا اور عالم کو بے انتہا محبت کرتے تھے لیکن جیا کے دماغ میں عالم سے نفرت کے سوا کوئی اور بات گھستی ہی نہیں تھی اس کے دل میں عالم کے خلاف بچپن سے جو لاوا اُبل رہا تھا وہ جانتی تھی کہ کھبی نہ کھبی اس لاوے نے آتش کی صورت اختیار ضرور کرنی ہے..
اس کے سینے میں دل نہیں پتھر تھا جس میں وہ صرف اپنے عزیز ترین لوگوں کے لئے نرم جذبات رکھتی تھی اور اس فہرست میں عالم کا نام دور دور تک شامل نہیں تھا مگر نفرت کی سر فہرست میں عالم کا نام ضرور درج تھا..
عالم کی نگاہ بلا ارادہ اس پر پڑی جس نے نفرت سے اپنا رخ موڑ لیا تھا عالم نے جھک کر بی جان کے ہاتھ پر عقیدت بھرا بوسہ دیا..
اٹھ گیا میرا بچہ..
بی جان اس کے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں بھرتی اس کا ماتھا چھومتے ہوۓ گویا ہوئیں..
جی بی جان ..
عالم سنگل صوفے پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنساتے ہوۓ مسکرا بولا..
خیال رکھا کرو اپنا دیکھوں کتنے کمزور ہوگئے ہو.. بی جان اس کے اچھے خاصے ہٹے کٹے کسرتی وجود کو کمزور کہہ کر عالم کو ہنسانے پر مجبور کرگںٔیں..
جیا نے ترچھی نظر سے اسے دیکھا مگر فورا ہی اسے اپنی نظروں کا رخ بدلنا پڑا..
عالم مسکراتے ہوۓ بی جان سے بات کررہا تھا جس سے اس کے گالوں پر ڈمپل نمودار ہوۓ تھے اور ڈمپل جیا کی کمزوری تھے..لیکن عالم کے گالوں پر پڑتے ڈمپلز کو دیکھ کر اکثر اس کا دل کہتا کہ جاکر وہ اس کا منہ نوچ لے …
اس نے سر جھٹک کر موبائل پر موصول ہوتی میسج کو اوپن کیا جس سے اس کے لب خود بخود مسکراہٹ میں ڈھلے وہ میسج ٹاںٔپ کرتی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر موبائل پر مصروف ہوگئی اور عالم کو ایسے نظر انداز کیا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو
عالم نے اس کے چہرے پر ابھرتی قوس و قزح کے رنگوں کو بغور دیکھا اور فورا سے اپنی نگاہیں جھکا کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوتا بی جان سے اجازت طلب کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا..
جاری ہے