۔
جو درد کے صحرا میں اکیلا بھی بہت ہےاُس کے لیے دیوار کا سایہ بھی بہت ہےدیکھا نہیں تنہائی میں تم نے کبھی اُس کوبچھڑے ہوےٓ لوگوں کو وہ رویا بھی بہت ہےکچھ تجھ کو محبت پر یقین تھا نا وفا پرکچھ دکھ مِری تقدیر میں لکھا بھی بہت ہےبینائی اندھیروں سے بھلا کیسے بچاتااک شخص تِرے ہجر میں جاگا بھی بہت ہےوہ اور ہیں جو چُھو کے تجھے دیکھنا چاہیںمجھ کو تو مِرے خواب کی دُنیا بھی بہت ہےکردار سے محروم تھا یہ شہر سو اِس نےہم کو در و دیوار پہ لکّھا بھی بہت ہے نوشی گیلانی_________________۔گاڑی ایک جھٹکے سے عشرت محل کے سامنے رکی تو ابراد بھی پل بھر میں ماضی سے حال میں لوٹا تھا۔۔۔ آج ایک عرصہ بعد انقہ سے مل کر اس کے جذبات میں ویسا ہیجان برپا نہیں ہوا تھا، جیسا چھ سال پہلے اس سے نکاح کرتے وقت تھا۔۔۔ اسے بے یار و مددگار چھوڑتے وقت ابراد نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس سے دوبارہ سامنا ہونے پر وہ یوں پر سکون بھی رہ سکتا ہے۔۔۔ اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ اسے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنا آ گیا تھا یا پھر وہ اتنا بے حس ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی واقعہ اس پہ اثر انداز ہی نہیں ہوتا تھا۔”ابراد! تم مجھے بتائے بنا ہی یہاں سے چلے گئے۔۔۔ سب تمھارا پوچھ رہے ہیں۔“ وہ گاڑی سے نکل کر اس عالی شان بنگلے کے اندر داخل ہوا تو آج اسے وہاں پہلے سے بھی زیادہ سناٹا پھیلا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ خاموشیاں اس کے اندر اتر کر اسے کسی اور سمت سوچنے پر مجبور کرتیں، اس کے فون کی بجتی گھنٹی نے ماحول پہ چھایا سکوت توڑ دیا۔۔۔ رابطہ بحال کرتے ہی سمیحہ کی جھنجھلائی ہوئی آواز نے اس کی سماعتوں تک رسائی حاصل کی تھی۔”سمیحہ! مجھے کچھ کام ہے۔۔۔۔ بعد میں بات کرتا ہوں۔“ ابراد نے بے تاثر لہجے میں کسی بھی معذرت، وضاحت یا تبصرے کے بنا اپنی ہی بات کی تھی۔”ابراد! تم نے کہا تھا کہ شادی تک تم مجھے بالکل تنگ نہیں کرو گے۔۔۔ ابھی کے لیے تو چھوڑ رہی ہوں لیکن کل سے شادی کی خریداری شروع کرتے ہی میں تمھاری ایک بھی نہیں سننے والی۔“ فون کے اس پار موجود ہستی یقیناً اس کی ذات کے اسرار و رموز سے اچھے سے واقف تھی سو اس کی سنجیدگی کا اثر لیے بنا ہی دھونس بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔”اچھا ٹھیک ہے۔“ اس نے ایک گہرا سانس بھر کر ہار ماننے والے انداز میں کہا تو سمیحہ نے مزید ایک دو باتوں کے بعد رابطہ منقطع کر دیا تھا۔۔۔۔ اس سے بات کرنے کے بعد وہ نیم تاریک راہ داری سے گزرتا اپنے کمرے میں آ کر دیوار گیر کھڑکی کے سامنے آن رکا۔۔۔ تنہائی اور سکون میسر آیا تو ایک بار پھر اس کا دھیان آج ہونے والی اس غیر متوقع ملاقات کی طرف چلا گیا جس نے اسے ماضی کی عمیق گہرائیوں میں لا پٹخا تھا۔”نیاز! مجھے بینکویٹ کے احاطے میں لگے کیمروں سے آج رات کی ویڈیو بھیجو۔“ کچھ دیر یادوں کے جھولے میں جھولنے کے بعد وہ جیسے کسی نتیجے پر پہنچتے، اپنے موبائل پہ ایک نمبر ملا گیا تھا۔۔۔۔ متعلقہ شخص کو مطلوبہ ہدایات دینے کے بعد وہ اس کی جانب سے کسی پیغام کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر گزری کہ اپنے موبائل پر بجنے والی اطلاعی گھنٹی نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔۔۔ وہ اب نیاز کی جانب سے بھیجی جانے والی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں انقہ ایک گاڑی سے اترتی اور پھر اسی میں واپس جاتی بھی دکھائی دی۔۔۔ وہ خود گاڑی چلا کر وہاں آئی تھی، جس کا مطلب تھا کہ گاڑی یقیناً اسی کی ملکیت تھی۔”ایک گاڑی کا نمبر بھیج رہا ہوں۔۔۔ اس کا حالیہ مقام بتاؤ مجھے!“ ویڈیو دیکھتے ہی ابراد نے فوراً اپنا اگلا ہدف طے کر لیا تھا۔”ایک جگہ کا پتا بھیج رہا ہوں، مجھے اس کے مکینوں کے بارے میں ساری معلومات چاہیے ہیں۔“ مرحلہ در مرحلہ وہ اپنی منکوحہ کے قریب پہنچ رہا تھا۔۔۔۔ اگلے ایک گھنٹے میں اس کے پاس انقہ کے گھر کا پتا موجود تھا، جہاں وہ پچھلے تین سال سے اپنی والدہ یعنی اس کی خالہ کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اتنے عرصہ سے پاکستان میں اسی کے شہر میں اس کی رہائشی کالونی سے کچھ ہی دیر کی مسافت پہ مقیم تھی تو پھر جو اتفاق آج ہوا، وہ پہلے کیوں نہیں ہوا؟ کیا یہ اس کے لیے کوئی اشارہ تھا؟ کہ جو جب ہونا ہو، تب ہی ہوتا ہے، بس اسے ہی ابھی تک اس چیز کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ویسے بھی سال کے آٹھ مہینے وہ ملک سے باہر گزارتا تھا تو یہ ملاقات پہلے کیوں کر ہو جاتی؟ یہ اور بات کہ جن کی تلاش میں وہ در در کی خاک چھان رہا تھا، وہ میلوں کی بجائے منٹوں کی دوری پہ تھے۔۔۔۔ قسمت کے کھیل سے بے خبر اپنا آگے کا لائحہ عمل طے کرتا، ابراد سونے کے لیے لیٹ چکا تھا۔۔۔ پچھلی بار وہ اپنے تئیں قسمت کو ہرا کر آگے بڑھ گیا تھا، لیکن پہلے بھی جو ہوا وہ اس کی سوچ سے پرے تھا اور اب جو ہونے جا رہا تھا، وہ بھی اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔_________________۔