” تمھیں ساتھ لے جانا مجبوری ہے کیونکہ تمھارے گھر میری بہن ہے اب سے اگر میں تمھارے ساتھ کچھ بھی اچھا کرتا ہوں تو صرف اس لیے، ورنہ نہ تم وہ صفیہ ایمل گلزار رہی نہ میں وہ پاگل سعد اللّٰہ رہا۔”ایک بار وہ اور پھنکارا۔جانے اس نے اتنا زہر کہاں سے اپنے اندر انڈیلا تھا۔وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی گئی بالکل خاموش۔چہرے پر موجود لالی بھی جیسے ہلدی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ آنکھیں جو پہلے چراغ کی مانند روشن تھیں اب ان میں دھواں بھر گیا تھا۔سیاہ ہو گئیں تھیں کالی سیاہ!وۃ جیسے ہی باہر نکلے ان کے کانوں میں گانے کے بول پڑے۔کتھے رکھاں تیرا ریشمی رومالکیتھے رکھاں تیرا دل اڑیئےکتھے رکھاں تیرا ریشمی رومال کتھے رکھاں تیرا دل اڑیئے سعد اللّٰہ نے مسکرا کر صفیہ کی جانب دیکھا کیونکہ سب گھر والے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔”بتاؤ تمھارا دل کہاں رکھوں؟”میٹھی آواز میں پوچھے گئے سوال پر وہ الجھی۔کیا وہ منافق بھی تھا؟صفیہ نے اپنا ہاتھ اس کی قید سے آزاد کیا۔”میرا دل مجھے واپس کر دو۔”صفیہ نے سعد اللّٰہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔اب کی بار سعد اللّٰہ کے چہرے کی رنگت ماند پڑی تھی۔ وہ کچھ پل اس کے چہرے کو دیکھتی رہی پھر آگے بڑھ گئی شاید یہ کچھ لمحات باقی سب کے لیے ؤیسے ہی ہوں گے جیسے سعد اللّٰہ دیکھانا چاہ رہا تھا لیکن حقیقت ،حقیقت دیکھائی جانے والی چیزوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔
Berg E Zard Episode No 17 By Zummer Fatima
