Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 46


لہیم جاہ نے پانچ منٹ میں اپنی میٹنگ ختم کی اور باقی کا کام بلال احمد کے حوالے کرتا آفس سے نکلا تھا۔ آفس کی سات سیڑھیوں سے نیچے اترنے کی نوبت نہیں آئی تھی جب گہرے بھورے رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے، آنکھوں پہ سیاہ چشمہ لگائے واصب حقانی اس کے راستے میں حائل ہوا تھا۔
”کیسے ہیں مسٹر لہیم جاہ!“ بائیں ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ پکڑے، دایاں ہاتھ اس سے مصافحے کے لیے آگے بڑھایا تھا۔
”مسٹر واصب حقانی! میں نے واضح الفاظ میں آپ کو تنبیہ کی تھی کہ میرے سامنے مت آئیے گا اور آپ کی ہمت کہ آپ آج میرا راستہ ہی روک کر کھڑے ہو گئے ہیں۔“ لہیم جاہ کو ڈی سی آفس پہنچنے کی جتنی جلدی تھی اتنی ہی تاخیر ہو رہی تھی۔
”اس بیگ میں ایک کروڑ کی نقد رقم ہے۔ تم اپنا گھوڑا مجھے بیچ دو میں دوبارہ تمھارے راستے میں تو کیا، کبھی سامنے بھی نہیں آؤں گا۔“ واصب نے سیاہ چرمی بیگ اس کی طرف بڑھایا تھا۔
”میں نے کہا تھا نا کہ میری کوئی چیز بکاؤ نہیں ہے۔“ وہ خود کا غصہ ضبط نہیں کر پایا اور ایک دم اس کا کالر دبوچ گیا تھا۔
”نہ تمھاری اتنی حیثیت ہی ہے کہ میری کسی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکو۔“ چند قدم کے فاصلے پر کھڑا شجاع فرید تیزی سے ان کے قریب آیا تھا۔
”سر! سر! لوگ دیکھ رہے ہیں۔“ شجاع فرید نے اسے احساس دلایا تھا۔ جیکسن بھی ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر باہر آ کھڑا ہوا تھا۔ لوگن گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے شیشے سے منھ ٹکائے، واصب کو دیکھتے ہوئے مسلسل غرا رہا تھا۔
”اگر یہ رقم کم ہے تو میں بلینک چیک دینے کو بھی تیار ہوں۔“ لہیم جاہ نے اس کا کالر ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔ وہ اپنا کوٹ درست کرتا ابھی بھی اسی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”تمھیں شاید یہ پسند نہیں کہ تم اپنی ہی ٹانگوں پر چل کر یہاں سے واپس جاؤ۔“ لہیم جاہ ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔
”جو چیز مجھے پسند آ جاتی ہے میں اسے ہر قیمت پر حاصل کر کے ہی رہتا ہوں۔ اس لیے مان جاؤ! اور منھ مانگی قیمت لے لو۔“ کوٹ کی جیب سے چیک بک نکالنے کی غرض سے جیب کے اندر ہاتھ ڈالا تھا۔ وہ آج ہر قسم کی تیاری کے ساتھ ہی وہاں آیا تھا۔
”جو چیز ایک بار میری ہو جائے وہ ہمیشہ کے لیے میری ہو جاتی ہے۔ اسے موت ہی مجھ سے الگ کر سکتی ہے۔ میرا گھوڑا مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ کوئی نیلامی میں رکھا ہوا مال نہیں جس کی تم بولیاں لگا رہے ہو۔“ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹتی محسوس ہو رہی تھیں۔
”سر! ہمیں دیر ہو رہی ہے۔“ شجاع فرید نے پھر یاد دلایا تھا۔
”دوبارہ میرے سامنے آئے تو تمھیں گولی مارنے میں مجھے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔“ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر لہیم جاہ نے ہلکا سا دھکا دے کر اسے اپنے راستے سے ہٹایا تھا۔ اور تیزی سے سیڑھیاں اترتا گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔
”اسے موت ہی مجھ سے الگ کر سکتی ہے۔“ واصب نے اس کے کہے الفاظ دہرائے تھے۔
”تو موت کب کسی سے پوچھ کر آتی ہے لہیم اسفند جاہ!“ وہ ایک استہزائیہ ہنسی ہنستا اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔ اردگرد کھڑے لوگوں کی نظریں اسی پہ ٹکی تھیں۔ بے عزتی کا احساس یک دم کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Leave a Comment