Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 46


لہیم جاہ کو آنے میں معمول سے کہیں زیادہ تاخیر ہو گئی تھی۔ عبدالمعید دو سے تین بار اسے فون کر چکا تھا مگر وہ ہر بار نمبر بزی کر دیتا۔ عباد بدر صاحب یہ سب بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔
”کیا آپ کے دوست نے کسی دوسرے شہر سے آنا تھا؟“ کافی دیر کی خاموشی کے بعد آخر ان سے رہا نہیں گیا تھا۔
”جی نہیں!“ عبدالمعید نے فون رکھا اور انٹرکام پہ تین کپ چائے لانے کا کہا تھا۔
”مجھے چائے پانی نہیں، میری بیٹی چاہیے جسے آپ کے دوست نے۔۔۔“ ان کے باقی کے الفاظ سن کے منھ میں ہی دم توڑ گئے زور دار آواز کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر آنے والا اور کوئی نہیں لہیم جاہ تھا۔ وہ عباد بدر کا وہ جملہ سن چکا تھا۔ کچھ غصہ اسے واصب حقانی کی باتوں پر تھا اور مزید جلتی پر تیل ان کے اس جملے نے چھڑک دیا تھا۔
”کیا آپ اپنی بات کی وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے پروفیسر صاحب؟“ عبدالمعید اسے دیکھتے ہی اٹھنے لگا جسے اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا تھا۔
”میری بیٹی کہاں ہے؟“ وہ اس کے غصے یا ظاہری شخصیت سے مرعوب نہ اس دن ہوئے تھے نہ آج ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔
”یہ سوال آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ وہ ان کے سامنے کھڑا تھا۔
”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ نے خود ہی اپنی بیٹی کو کہیں غائب کر دیا ہو اور الزام مجھ پر لگا رہے ہوں تاکہ آپ پر کسی کا شک نہ جائے۔“ سینے پر ہاتھ باندھے یہ سب کہتا وہ انھیں سر تا پا سلگا گیا تھا۔
”میں بھلا اپنی بیٹی کو کیوں غائب کروں گا۔۔؟“ وہ غصہ ضبط کرتے کرتے بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”اس دن میرے ساتھ جو دیکھ لیا تھا آپ نے اسے، اور ایک غیرت مند باپ کی عزت کو ٹھیس پہنچانے والی بیٹی کو آپ نے خود ہی۔۔۔“ عباد بدر نے بڑی مشکل سے خود کو کچھ کہنے یا اس پر ہاتھ اٹھانے سے روکا تھا۔
”سچ سچ بتائیے پروفیسر صاحب۔! وہ کہاں ہے؟ زندہ بھی ہے یا۔۔۔“ وہ ایک قدم چل کر ان کے قریب ہوتا عجیب سے لہجے میں استفسار کر رہا تھا۔
”زبان سنبھال کر بات کریں مسٹر لہیم جاہ!“ اب کے ان سے برداشت نہیں ہوا تھا۔
”میں اتنا برا شخص نہیں ہوں کہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کا سوچوں بھی۔۔۔ ایک تم ہی تھے جس کے لیے وہ پارک میں جاتی تھی۔“ وہ آپ سے تم پر آئے تھے۔
”نہ وہ میرے لیے آتی تھی اور نہ میں ہی اس کے لیے جاتا۔۔۔“ وہ کہتے کہتے چپ ہوا تھا اور اس کی چپ سے عباد بدر نے اور ہی معنی اخذ کیے تھے۔
”اب تمھاری اس چپ کے کیا معنی ہیں؟ مجھے بتا دو تم نے تابعہ کو کہاں چھپایا ہے؟“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھ رہے تھے۔ وہ اس پہ شک ظاہر نہیں کر رہے تھے بلکہ صاف صاف اسی کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔
”آپ بنا تحقیق اور کسی ثبوت کے مجھ پر اتنا بڑا الزام نہیں لگا سکتے۔ میرا آپ کی بیٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں تو اس کے بارے میں جانتا تک نہیں، سوائے نام کے مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔ اور نام بھی اس نے خود سے نہیں بتایا تھا۔ اس کی کسی دوست کو کہتے ہی سنا تھا۔“ اس کے ایک ایک لفظ میں سچائی تھی لیکن عباد بدر جس ذہنی دباؤ سے گزر رہے تھے ایسے میں انھیں اس کی کسی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
”مجھے صرف یہ بتا دو تم نے اسے اغوا کیا ہے یا وہ اپنی مرضی سے تمھارے ساتھ کہیں گئی ہے؟“ انھوں نے پھر وہی بات کی جس سے اس کے غصے کا گراف بلند ہوا تھا۔
”اب آپ حد سے بڑھ رہے ہیں پروفیسر صاحب۔۔!“ اتنی دیر میں پہلی بار عبدالمعید درمیان میں بولا تھا۔
”اس میں جھوٹ کیا ہے ڈی سی صاحب کہ میری بیٹی کو آپ کے دوست نے ہی۔۔۔“ وہ بولے لیکن لہیم جاہ نے ان کی بات قطع کرتے ہوئے درشتی سے کہا تھا:
”اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ نے خود اسے غائب نہیں کیا؟ غیرت کے نام پر بہن یا بیٹی کو قتل کرنے کی تاریخ ہمارے پاکستان میں پرانی نہیں ہے۔“ وہ اپنی آواز کو بلند ہونے سے بمشکل روک پا رہا تھا۔
”اس بات کا ثبوت میں ہوں، جس وقت ہمیں تابعہ کے غائب ہونے کی خبر ملی عباد اس وقت میرے ساتھ میری دکان پر تھے۔“ اظہر ملک نے بھی پہلی بار زبان کھولی تھی۔
”میں بھی یہی کہوں گا کہ اپنی بیٹی کی گمشدگی کا جو وقت آپ بتا رہے ہیں لہیم اس وقت میرے ساتھ تھا۔“ عبدالمعید نے بھی اس کے اپنے ساتھ ہونے کی بات کی تو عباد بدر نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
”آپ دونوں کے لیے کرائے کے غنڈوں سے یہ کام کروانا کون سا مشکل ہے؟“ لہیم جاہ کا ضبط جواب دے گیا اس نے یک لخت میز پر ہاتھ مارا تھا۔ جس سے پیدا ہونے والی زور دار دھمک سے پل بھر کو سب کے دل دہل سے گئے تھے۔


Leave a Comment