Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 46


”یہی سب، جو کرنے کا بے بنیاد الزام آپ مجھ پر لگا رہے ہیں وہ سب کرنا آپ کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔“ وہ دھاڑا ہی تو تھا۔ عبدالمعید بے ساختہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ آواز کے باہر جانے کا اندیشہ بھی لاحق ہوا تھا۔
”میں اتنا بزدل مرد نہیں ہوں کہ آپ پر اپنی مردانگی ثابت کرنے کے لیے آپ کی بیٹی کو اغوا کروں اور نہ مجھے عورت ذات کا اتنا نشہ رہا ہے کہ اس نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے میں اغوا جیسے گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتروں۔“ عبدالمعید نے دروازے کی طرف دیکھا تھا، شک تھا ابھی کوئی اندر آ جائے گا۔
”لہیم! آرام سے بات کرو، ہم میرے آفس میں بیٹھے ہیں، گھر پر نہیں ہیں۔ اور یہ کمرہ ساؤنڈ پروف بھی نہیں ہے۔“ میز پر رکھا پانی کا گلاس اسے تھمایا تھا۔
”اور پروفیسر صاحب پلیز! میں آپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں۔ مگر آپ بھی اس طرح بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کیجیے۔“ اس کے ساتھ ہی عباد بدر سے بھی مخاطب ہوا تھا۔ وہ محض سر جھٹک کر رہ گئے تھے۔ اظہر ملک نے ان کا بازو تھام کر انھیں شانت رہتے ہوئے بیٹھ جانے کا کہا تھا۔
”جتنا آپ اپنی بیٹی کو جانتے ہوں گے اس سے کہیں زیادہ میں اپنے دوست کو جانتا ہوں۔ آپ کی بیٹی کے غائب ہونے یا اس کے کہیں چلے جانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔“
”میری بیٹی ایسی نہیں ہے کہ وہ کہیں بھی چلی جائے۔“ عبدالمعید کی آخری بات انھیں خنجر کی نوک کی طرح چبھی تھی۔
”وہ کیا خود سے کہیں جائے گی؟ اسے تو گھر کے سیدھے سے راستے تک یاد نہیں رہتے۔“ وہ سر پکڑ کر بیٹھ رہے تھے۔ آواز میں گھلی نمی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
”آپ کو کسی پہ شک ہے؟“ عبدالمعید نے استفسار کیا تھا۔
”میں ایک سیدھا سادھا پروفیسر ہوں ڈی سی صاحب! میرا ایسا کوئی دشمن نہیں ہے جو مجھے تکلیف پہنچانے کے لیے اس طرح وار کرے۔“ لہیم جاہ خاموشی سے ایک کرسی گھسیٹ کر قدرے فاصلے پر لے جا کر بیٹھ گیا تھا۔
”کچھ کیجیے ڈی سی صاحب! ہم پولیس کے پاس نہیں جانا چاہتے۔“ عباد بدر فی الحال کچھ بولنے کی حالت میں نہیں تھے تو ان کی طرف سے اظہر ملک نے یہ بات کہی تھی۔
”کل شام سے اب تک آپ لوگوں نے اب تک کچھ کیوں نہیں کیا؟“ لہیم جاہ ان کی بات سن کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”ہم اپنے طور پر اسے تلاش کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے تھے۔“ یہ جواب بھی اظہر ملک نے ہی دیا تھا۔
”اور یہ کوششیں آپ کہاں کرتے رہے؟ اپنے ہی گھروں کے آس پاس؟ اپنے ہی محلے میں۔۔؟“ اس نے طنز سے بھرپور لہجے میں پوچھا تھا۔
”جب آپ کو معلوم تھا کہ آپ کی بیٹی اکیلی کہیں نہیں جاتی تو آپ کو کیوں لگا کہ وہ آپ کے محلے میں کہیں پائی جائے گی؟ کیا آپ سب کو وہ کوئی چھوٹی بچی لگی تھی جو راستہ بھٹکنے پر آپ کو کسی پیڑ پودے کے نیچے یا کسی ٹوٹے بینچ پر روتی ہوئی مل جاتی یہ سوچ کر کہ کوئی نہ کوئی اسے ڈھونڈنے آ ہی جائے گا۔“ لہیم جاہ کی بات میں وزن تھا۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
”آپ رات بھر گوگل پر مجھے تلاش کرتے رہے یہ جان کر بھی کہ میں ڈی سی عبدالمعید کا دوست ہوں آپ اسی وقت کیوں نہ اس سے ملنے چلے گئے؟ آپ کو رات بھر نیند کیسے آ گئی؟“ میز پر رکھے وہی پرنٹ، جو عباد بدر لائے تھے، اب اس کے ہاتھ میں تھے۔
”اپنی عزت کے ڈر سے پولیس کے پاس نہیں جا سکتے لیکن بیٹی کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی، کمال ہے۔“ اس نے وہ کاغذ ہوا میں اچھالے تھے۔ عباد بدر کا دل بری طرح سے لرزا تھا۔ اسے کیسے بتاتے کہ رات بھر نیند کس کافر کو آئی تھی؟ نیند بھی نہیں آئی تھی اور شک کا ننھا پودا بھی تناور درخت بن گیا تھا کہ تابعہ اسی کے ساتھ کہیں چلی گئی ہے۔ اور اب اس کی سب باتیں انھیں بہت سے پچھتاووں میں گھیر رہی تھیں۔
”میرا آپ کی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور اگر کچھ ہے بھی تو اس سب کو میں خود بھی کوئی نام دینے سے قاصر ہوں۔ اس لیے یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ میں نے اسے۔۔۔“ وہ ان کے قریب آیا تھا۔
”کسی کو اغوا کرنا یا کسی کے ساتھ گھر سے بھاگ جانا یہ تو بہت بعد کی باتیں ہیں پروفیسر صاحب! میں نے تو آپ کی بیٹی کو آج تک نظر بھر کر دیکھا تک نہیں ہے، بھاگنا یا اٹھوانا تو بہت دور کی بات ہے۔“ وہ ان کی سوچ پر ہنسا تھا۔
”محبت کے عہد و پیماں، اقرار و اعتراف کے قصے یا پھر دھوکے و بے اعتباری کی داستانیں رقم ہوتی ہیں تب کہیں جا کر راہِ محبت میں یہ مقام آتے ہیں۔ ہم تو ایک دوسرے کے نام سے زیادہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں اور آپ نے ایک ذرا سی بات پر پورا افسانہ گھڑ لیا۔۔۔ آفرین ہے آپ پہ پروفیسر صاحب!“ اس نے انھیں شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی بس ایک تالی بجا کر داد دینا ہی رہ گیا تھا۔ ان کی عمر اور اس وقت کی اذیت کا خیال نہ ہوتا تو وہ یہ بھی کر گزرتا۔
”جائیے پروفیسر صاحب! گھر جا کر آرام کیجیے۔ آپ کی بیٹی کے غائب ہونے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے البتہ اس کی بازیابی کے لیے میں اپنی جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کروں گا۔“ انھوں نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
”میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں کہ ایک باپ جب میرے نام پر خود ہی اپنی بیٹی کو بدنام کرنے پر تلا ہو اور میں اپنا نام صاف کرنے کی کوشش نہ کروں۔“ وہ انھیں اس حیرت سے باہر نکالتے ہوئے بولا تھا جو وہ سوچ رہے تھے کہ وہ ان کی مدد کر رہا تھا۔
”یہ مت سوچیے گا کہ آپ سے ہمدردی کر رہا ہوں۔ مجھے کسی سے بھی ہمدردی یا کسی بھی قسم کا سوشل ورک کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔“ اس نے ان کے خیال کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔
”میں یہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی میرا نام خراب کرنے کی کوشش کرے۔ آپ نے مجھ پر الزام لگایا کہ آپ کی بیٹی کے غائب ہونے میں میرا ہی ہاتھ ہے تو اب میں آپ پر ثابت کروں گا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔“ پورے کمرے میں سواے اس کے کسی کی آواز نہیں تھی۔ تینوں ہی دم سادھے اسے سن رہے تھے۔
”اس کا فون نمبر دے دیجیے گا۔ اور ہاں!“ سن گلاسز کوٹ کی جیب سے نکال کر، آنکھوں پر لگانے لگا تھا کہ کچھ یاد آنے پر دوبارہ ان سے مخاطب ہوا تھا۔
”اس دن آپ نے کہا تھا کہ ”تم کچھ نہیں ہو۔“ تو اب میں آپ کو بتاؤں گا کہ میں کیا ہوں اور ثابت کروں گا کہ میں ہی سب کچھ ہوں۔“ گلاسز آنکھوں پر چڑھائے تھے اور فون پر بات کرتا باہر نکلا تھا۔ اس کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ عبدالمعید نے ایک بار پھر انھیں ہر ممکن مدد کرنے کا بھرپور یقین دلایا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)

Leave a Comment