وہ کرسی پر مزید پھیل کر بیٹھتا ہوا بولا تھا۔”ویسے آپ کے ہاں گھر آئے مہمان کی خاطر تواضع کرنے کا رواج نہیں ہے کیا؟“ پھر ان کے بولنے سے قبل ہی اس نے چہار سو طائرانہ نگاہ دوڑائی تھی۔ اپنی کرسی سے چند ہی قدم دور اسے گھنٹی رکھی دکھائی دی تھی جو یقیناً وہاں بیٹھ کر اندر سے ملازمین کو بلانے کے لیے ہی رکھی گئی تھی۔”اس کا استعمال آپ اپنے دستِ مبارک سے کریں گی یا میں زحمت کروں؟“ ایلسی جاہ پھر اسے خشمگیں نگاہ سے گھورتے ہوئے بہ دل نخواستہ گھنٹی پر ہاتھ رکھا تھا۔ باوردی ملازم بوتل کے جن کی مانند فوراً حاضر ہوا تھا۔ ”چائے لے کر آؤ۔“”ہاں سنو! چائے ذرا اچھی سی بنانا، کیا خبر پھر یہ ملاقات نصیب ہو نہ ہو۔“ ان کی حالت سے لطف اٹھاتا وہ ملازم کو چائے کے متعلق اپنی پسند بتاتا رہا اور وہ جلتے انگاروں پر لوٹتی رہیں۔”کیا میں تمھاری یہاں آمد کا مقصد جان سکتی ہوں؟؟“ آخر ان کے ضبط کا پیمانہ جواب دے ہی گیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک تصویر نکال کر ان کے سامنے کرتا ہوا بولا:”اس آدمی سے آپ کا کیا تعلق ہے؟“ تصویر دیکھ کر کتنی ہی دیر تو وہ سکتے کے عالم میں کھڑی رہ گئیں۔ ”یہ۔۔۔ یہ تو مر چکا ہے۔“ منھ پر ہاتھ رکھے انھوں نے سرگوشی کے سے انداز میں ان کے منھ سے جملہ نکلا تھا۔”مر چکا ہے؟ یا مروا دیا گیا تھا؟ بالکل اسی طرح جس طرح آج اسفند جاہ کو مروانے کا منصوبہ تھا۔“ ان کا پورا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ آخر اس سامنے کھڑے شخص کا اس تصویر والے مرد سے کیا تعلق تھا؟ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا ماضی یوں ایک دم سے ان کے سامنے آ کھڑا ہو گا۔ وہ تو اس شہر سے اپنے ماضی کی ہر چھاپ مٹا کر آئی تھیں۔”تم اس آدمی کو کیسے جانتے ہو؟“ ان کے گلے کی ہڈی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ اپریل کے مہینے میں بھی ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھی تھیں۔ خوف کے اثر سے دمکتی رنگت ماند پڑ گئی تھی۔”بالکل اس طرح جیسے لہیم جاہ اسفند جاہ کو جانتا ہے۔“ اس نے تصویر سامنے کرتے ہوئے اس پر ہاتھ پھیرا اور واپس جیب میں رکھی تھی۔”تم۔۔۔ تم جمال الدین کرمانی کے بیٹے ہو؟“ ان کا رنگ مزید فق ہوا تھا۔”ہاں! مسز ایلسی جاہ! میں ضربان کرمانی، جمال الدین کرمانی کا بیٹا ہوں۔“ اس نے گویا ان کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔
Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 61
