٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭مطیبہ کا فون کب سے ٹھیک ہو کر آ گیا تھا لیکن شہرین نے فون واپس لینے سے انکار کیا تو اس نے اپنا فون یوں ہی ڈبے میں بند کرکے رکھ دیا تھا۔ فنکشن کے بعد فراغت ملی اور اسکول سے ایک دن کی چھٹی بھی تھی تو گھر کے کام نبٹا کر اس نے میموری کارڈ نکال کر نئے فون میں ڈالا تھا۔ امی ابو کسی ہمسائے کے ہاں ان کے گاؤں شادی پر گئے تھے اور شہرین کپڑے دھو رہی تھی۔ کسی کے بلائے جانے کا امکان نہیں تھا وہ گیلری کھول کر پرانی تصاویر دیکھنے بیٹھی تو ”زندگی“ کے نام سے بنا فولڈر اسے ماضی کی یادوں میں لے گیا تھا۔؎ خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا (خالد شریف)کتنی ہی باتیں ذہن میں اجاگر ہوئیں تو آنکھیں خود بخود بھیگ گئی تھیں۔ اتنے سالوں میں اس کے پاس اس شخص کی گنتی کی چند تصویریں ہی تھیں اور ان میں بھی وہ دشمنِ جاں اپنی بیوی یا بچوں کے ساتھ ہی نظر آتا تھا۔ اسے کبھی بھی اس کی پہلی بیوی یا بچوں سے نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ نفرت کے لائق تو وہ تھی جو ان کی زندگی میں گھس گئی تھی۔ اسے تو اس کی بیوی پر رشک آتا تھا جو اس شخص کے قریب تھی جسے اس نے دن رات، ہر لمحہ اپنی دعاؤں میں مانگا تھا۔؎ ہم کئی بار مل چکے ہوتے تم گر ملتے دعاؤں سے(نامعلوم)اسے ہر اس شخص پہ رشک آتا تھا جو اس کے قریب ہوتا اسے دیکھ اور سن سکتا تھا۔ البتہ کبھی کبھی اس کی بیوی سے حسد محسوس ہوتا تھا جب کبھی سرد رات کی تنہائی جان لیوا ہوتی اور ذہن کی رو بھٹک جاتی کہ وہ عورت کیسے اس شخص کے قریب ہو گی، اسے محسوس کر سکتی ہو گی کہ جس کا وہ اتنے سالوں سے بس خواب ہی دیکھتی آئی تھی اور پھر ساری رات اس کا تکیہ بھیگتا رہتا تھا۔ ہر صبح، طویل ترین تکلیف دہ رات کے اختتام پر وہ سوچتی تھی کہ:”ان راتوں کا وجود بھی غنیمت ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اپنے دکھ، مجبوریاں، اپنے شوق اور عیاشیوں کو اس کے پردے میں چھپا دیتے ہیں اور یہ بھی ایک اچھے راز دار کی طرح سب کے راز اپنی سیاہی کی کوکھ میں دفنائے چلی جاتی ہے۔ نہ کسی کا راز دوسرے پہ عیاں کرتی ہے اور نہ دن کی روشنی میں رات کی کالک ہی چہرے پر دکھائی دیتی ہے۔“ ہر صبح آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر، شکر کرتی تھی کہ اس کا چہرہ ہر کہانی نہیں کہتا، آنکھیں سرخ ہو کر ان کہے راز زمانے پہ عیاں نہیں کرتیں۔ یہ سیاہ رات اور اس کی خواب دیکھنے والی آنکھیں ہمیشہ سے ہی اس پر مہربان رہی تھیں۔ رات اسے اپنی آغوش میں پناہ دیتی تھی تو آنکھیں ساتھ روتی اور اس کے سب دکھ چھپا لیتی تھیں۔ اسکرول کرتے ہوئے اس کی شادی کی تصویر سامنے آئی تھی۔ دل سے ایک سرد آہ نکلی تھی۔ اس شخص کی دلہن بن کر یوں سجنے سنورنے کے کتنے خواب دیکھے تھے اس نے۔۔۔؎ ہونا تو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے پر یہ میرے خواب، میرے خواب، میرے خواب(نامعلوم)ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں پھر سے آنکھوں میں چبھنے لگی تھیں۔ کچھ زخم جتنے بھی پرانے ہو جائیں ٹھیس لگنے پر ہر بار نئے سرے سے تکلیف دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ نہ صبح اس سے بات کیے بغیر ہوتی تھی نہ رات ہی گزرتی تھی اور اب۔۔۔ اب اتنے دنوں بلکہ مہینوں سے کوئی اتا پتا ہی نہیں تھا۔؎ کتنا رویا تھا میں تیری خاطر اب سوچوں تو ہنسی آتی ہے (نامعلوم)وہ بیٹھے بیٹھے ہی روتے ہوئے ہنس دی تھی۔ کانچ کی سی چبھن لیے، خوابوں کے ریزہ ریزہ ہونے پر بکھری سی ہنسی۔ کپڑے دھو کر اندر آتی شہرین نے اس کی ہنسی کی گونج سنی اور چہرے پر بہتے آنسو دیکھے تو گہرے دکھ اور تاسف سے اس کا دل بھر گیا تھا۔”تم نے تو اس شخص کی ساری چیٹ ڈیلیٹ کر دی تھی نا۔۔! اب کیا لیے بیٹھی ہو؟“ دروازہ بجا کر اسے متوجہ کیا اور اندر آ کر اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ وہ ایک دم چونکی، اسے دیکھا پھر پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:”ہاں! وہ تو کب کی کر چکی ہوں۔“ چہرے پر ہاتھ پھیر کر آنسوؤں کے نشان صاف کیے تھے۔”یہ بس گیلری میں تصویریں پڑی تھیں تو۔۔۔“ اس نے فون لاک کرکے رکھ دیا تھا۔”انھیں بھی ڈیلیٹ کر دینا چاہیے تھا۔“”نہ۔۔۔ ہمت نہیں پڑتی۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔”کچھ تو نشانی رہنی چاہیے۔“”تکلیف دہ نشانیوں کو سنبھالنے کا کیا فائدہ؟“”ان نشانیوں کی چبھن سے مجھے احساس رہے گا کہ میں کتنی بےوقوف تھی۔“”وہ تو تم اب بھی ہو۔ کل جب کوئی اور شخص تمھاری زندگی میں شامل ہو گا تو ماضی کی نشانیوں کو گلے لگا کر رکھنے سے اپنا ہی نقصان ہو گا۔“ شہرین نے اسے آنے والے اچھے دنوں کی امید دلائی تھی۔”مجھ ایسے حرماں نصیبوں کو کسی کا ساتھ میسر نہیں آتا شہرین! مجھ جیسے صرف وقت گزاری کا سامان ہوتے ہیں۔“ وہ خود اذیتی کی انتہا پر تھی۔”ہش پاگل! ایسی مایوسی والی باتیں نہیں کرتے۔“ شہرین نے اسے سرزنش کی تھی۔”ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ تمھارا بھی وقت آئے گا۔“ وہ اس بات کر روتے ہوئے بھی کھلکھلا کر ہنس دی اور بولی:”انڈین اداکار عرفان خان نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ جب ہم جیسوں کا وقت آتا ہے تو بیچ میں موت آ جاتی ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔“ شہرین اٹھ کر اس کے بالکل سامنے آئی اور غصے سے بولی تھی:”تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ فضول کی باتوں میں خود کو ہلکان مت کرو۔ ہم تمھارے لیے کوئی اچھا رشتہ تلاش کریں گے ایک ایسا شخص جو تمھیں بہت پیار اور محبت سے رکھے گا اور تم خوش رہو گی۔“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر محبت سے بولی تھی۔”پیار محبت جیسی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں ہے شہرین! یہ سب ہماری غلط فہمی ہوتی ہے۔“ وہ سر جھٹک کر اس کی تردید کرتے ہوئے بولی تھی۔”چھوڑو نا یہ سب باتیں، کل تم فنکشن پہ کتنی خوب صورت لگ رہی تھی۔“ شہرین نے پھر خفگی سے اسے ٹوکا اور اپنی بات جاری رکھی۔”سوچو جب دلہن بنو گی تب کتنی پیاری لگو گی۔ میں دعوے سے کَہ سکتی ہوں کہ تم نظر لگ جانے کی حد تک۔۔۔“ ”میں نے کبھی اس نہج پہ سوچا ہی نہیں تھا شہرین!“ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی:”انھوں نے جب کہا تھا کہ میں آ رہا ہوں اور آتے ہی تم سے شادی کروں گا تو تب بھی میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ میں دلہن بنوں گی، بس یہی سوچ تھی کہ کسی بھی طرح دعائیں رنگ لے آئیں اور وہ مجھے مل جائیں، میں ان کی ہو جاؤں۔“ وہ پھر وہ ساری باتیں، سارا وقت یاد کرکے اسی اذیت سے دوچار ہوئی تھی جیسی اس وقت ہوئی ہو گی۔”میں نے اللہ سے صرف اس شخص کا ساتھ مانگا تھا کہ وہ مجھے مل جائے اس سے زیادہ کی تمنا کبھی بھی نہیں کی تھی لیکن دیکھو۔۔۔ میرے ہاتھ میرے مقدر کی طرح خالی رہ گئے۔“ وہ خالی ہاتھ پھیلائے شدت سے رو پڑی تھی۔”اس میں کوئی مصلحت ہو گی مطیبہ!“ شہرین نے اسے سمجھانا چاہا تھا۔”کیسی مصلحت یار؟؟ ہمیں کیا پتا چلے کہ کیا بہتر ہے کیا نہیں؟ اگر بہتر نہیں ہوتا تو ذہن سے نکال کیوں نہیں دیتا؟ راستے بدل کیوں نہیں دیتا؟ دل سے وہ خیال نکال کیوں نہیں دیتا؟ کیوں ہمیں اس چیز کے لیے روتے بلکتے دیکھ کر بھی ہماری فریاد رسی نہیں کرتا۔ اسے تو اچھے برے کا سب علم ہے۔ اسے سب پتا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے لیے اچھا ہے کیا برا ہے تو پھر کیوں۔۔۔“”اب تو اچھا برا واضح ہو گیا نا مطیبہ! وہ شخص نہ تمھارے نصیب میں تھا نہ تمھارے لیے بہتر تو اب تو نکال دی نا دل و دماغ سے بھی اور زندگی سے بھی۔۔۔“ اس کے ہاتھ تھام کر اسے کہا تھا۔”اب۔۔؟؟ اتنے سال بعد؟ جب میری سوچ اس ایک نکتے پر آ کر ٹھہر گئی ہے۔ میری زندگی اس مقام سے آگے بڑھ ہی نہیں پا رہی ہے۔“ شہرین کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کوئی حرفِ تسلی کوئی ایسا منتر نہیں تھا جسے پھونک کر وہ مطیبہ کے دل کو سکون دے پاتی۔ کچھ دیر بعد بولی تو بس اتنا ہی:”پرسکون رہو مطیبہ! ہر انسان اپنے حصے کی خوشی اور غم اپنے وقت پر حاصل کر لیتا ہے۔“ مطیبہ نے اسے دیکھا اور اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے نکالتے ہوئے بولی تھی:”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا وقت آنے سے پہلے میری موت آ جائے گی۔“ہم ہیں بےفیض ادیبوں کے ادھورے مصرعےاور وہ میر کے دیوان پہ چھایا ہوا شخصخودکشی، عشــق، فنا، قتل یا پھر ترکِ وفا کچھ بھی کر سکتا ہے جذبات میں آیا ہوا شخص(نامعلوم)شہرین دم سادھے، صدمے سے کچھ بول نہیں پائی تھی۔ خاموشی کا ایک طویل دورانیہ دونوں کے درمیان حائل ہوا تھا یہاں تک کہ دروازے کی گھنٹی نے دونوں کے خیالات میں خلل ڈالا تھا۔ شہرین دروازہ کھولنے اٹھی اور سامنے شبیر حقانی کے ساتھ بختاور کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ حیران ہوئی تھی۔ ایسا ہی کچھ حال اسے دیکھ کر بختاور کا بھی ہوا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 61
