”لگتا ہے کہ آج میرا فون پہلی ہی بیل پر اٹھا لیا۔“ وہ مسکرایا تھا۔”آپ جاگ رہے ہیں؟“ مطیبہ کو اس کے اس وقت جاگتے رہنے کا شائبہ بھی ہوتا تو کبھی بھی اس کی چیٹ نہ کھولتی۔ اب اس کا فون آیا تو حیرت سے خود کو پوچھنے سے روک نہ پائی تھی۔”میری راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔“ اس کا شوخی سے بھرپور جواب آیا تھا۔ اسے اس قسم کی باتوں کا جتنا شوق تھا مطیبہ اتنا ہی اس سے چڑتی تھی۔”راتوں کے سپاہی ہو کیا۔۔؟“ اس کا اشارہ چور کی طرف تھا۔”ہاں کَہ سکتی ہو، آج کل کسی کی نیندیں چرانے کا کام کر تو رہا ہوں۔“ ایک بار پھر وہی شوخ انداز استعمال ہوا تھا۔”لیکن لگتا نہیں اس میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ اتنا آسان کام نہیں ہے۔“ مطیبہ کو اسکول جانے کی تیاری کرنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے تو مسہری پر لیٹ کر، شہرین کی جانب پیٹھ کر کے اس سے بات کرنے لگی تھی۔”ہر کام اپنے ہونے کے لیے مناسب وقت مانگتا ہے۔ رفتہ رفتہ کامیاب ہو ہی جاؤں گا۔“ وہ پر عزم تھا اور پورے یقین سے کَہ رہا تھا۔”کل تمھارے اسکول میں سالانہ فنکشن ہے نا۔!“ اس نے بات بدلتے ہوئے پوچھا تھا۔”ہاں ہے۔“ مختصر جواب دیا تھا۔”تم نے مجھے نہیں بلایا۔“ اس نے اپنائیت بھرا شکوہ یوں کیا جیسے وہ اسے لازمی ہی تو بلانے والی تھی اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی اگلی بات کی تھی۔”تم نے اگر نہیں بلایا تو کیا ہوا؟ میں خود چلا آؤں گا۔“ مطیبہ نے اس کی بات کو درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ محض لفاظی کر رہا تھا۔”مجھے دیر ہو رہی ہے۔ خدا حافظ“ جلدی سے کَہ کر فون بند کرنا چاہا مگر وہ پہلے ہی بول پڑا تھا۔”تم نے رات میری بات کا جواب نہیں دیا تھا۔“”ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔“”مگر کچھ باتیں خواب طلب ہوتی ہیں۔“”میں ضروری نہیں سمجھتی۔“”تم محبت جیسے جذبوں کی پذیرائی ضروری نہیں سمجھتی؟؟“ وہ حیران ہوا تھا۔”تم محبت کو۔۔۔“”محبت نری حماقت ہے۔“ اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ مطیبہ نے وقت دیکھا۔ گھڑی کی سوئیاں تیزی سے سرک رہی تھیں اور وہ جان بوجھ کر اسے ایک لاحاصل بحث میں الجھائے چلا جا رہا تھا۔”لگتا ہے کہ محبت میں بڑی چوٹ کھائی ہے۔“ اس نے تاک کا نشانہ لگایا تھا اور تیر عین نشانے پر آ لگا تھا۔”میں سچ کَہ رہا ہوں نا!“ اس کی خاموشی نے اسے مزید بولنے پر شہ دی تھی۔”تم سے مطلب؟؟“ وہ برا سا منھ بنا کر بولی تھی۔”اب مجھے تم سے ہی تو مطلب ہے۔“ وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتا ہوا بولا تھا۔”تم ہاتھ تو بڑھاؤ! میں تمھارے ہر غم کا مداوا کر دوں گا۔“ اس کا گھمبیر، آنچ دیتا لہجہ، مطیبہ کا دل سکڑ کر سمٹا تھا۔ ”مطیبہ! اٹھ جاؤ بیٹا! اسکول نہیں جانا ہے کیا؟“ امی نے دروازہ بجاتے ہوئے اسے آواز لگائی تھی۔ آواز اتنی بلند تھی کہ واصب کے کانوں تک بآسانی پہنچی تھی۔