”پروفیسر عباد بدر صاحب! کہیے کیسے ہیں آپ؟“ شبیر حقانی کے لیے ان کا فون آنا بڑی حیرانی کا سبب بنا تھا۔ وہ انھیں بھول نہیں سکتے تھے۔ بھولتے بھی کیسے؟ بختاور انھیں کی وجہ سے تو اپنا گھر اپنا شہر چھوڑ کر گئی تھی۔”میں بالکل ٹھیک نہیں ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جو کچھ میں آپ کو بتاؤں گا وہ سننے کے بعد آپ بھی ٹھیک نہیں رہیں گے۔“ ان کے لہجے کا سنگین پن محسوس کرتے انھیں کچھ غلط ہونے کا اندیشہ لاحق ہوا تھا۔ خیال کی رو پہلی فرصت میں بختاور کی طرف گئی تھی۔”کیا بات ہے پروفیسر صاحب!؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ بختاور تو ٹھیک ہے؟“ ”جی بالکل! اسے کیا ہو گا؟ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ البتہ اس کی حرکتیں بالکل ایسی ہیں کہ وہ کسی اور کو ٹھیک نہیں رہنے دے سکتیں۔“ ان کا طنز سے بھرپور، کاٹ دار لہجہ شبیر حقانی کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔”کیا آپ سیدھے الفاظ میں اپنا مقصد بیان کرنا پسند کریں گے؟ یہ ہم دونوں کے لیے بہتر ہو گا کہ آپ بات گھمانے کے بجائے اصل موضوع پر آئیں کیوں کہ فضول کی باتوں میں وقت ضائع کروں، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔“ وہ بھی کھردرے لہجے میں بولے عباد بدر کو مزید بھڑکا گئے تھے۔”وقت کی قلت کا رونا رونے سے اچھا ہوتا کہ اپنی بیٹی کی تربیت پہ زور دیا ہوتا تو آج مجھے گھما پھرا کر بات کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔“ شبیر حقانی اس وقت اپنے دفتر میں موجود تھے۔ کال آنے سے کچھ ہی دیر پہلے انھوں نے اپنے پی اے سے آج کی میٹنگز کا سارا شیڈول پوچھ کر اسے وہ فائلیں لانے کا کہا تھا جن پر آج ہی کی تاریخ میں ان کے دستخط ہونا ضروری تھا۔ ساتھ ہی اپنی سیکرٹری کو بلا کر کچھ اہم دستاویزات کے متعلق ڈکٹیشن دینے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔