”اب آپ حد سے تجاوز کر رہے ہیں پروفیسر صاحب! اور اپنے پیشے کے تقدس کا خیال رکھیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بھول جاؤں۔“ ان کا پی اے جواد اور اس کے پیچھے ان کی آفس کے معاملات دیکھتی ان کی سیکرٹری شاذمہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے تھے۔ ان کے کچھ کہنے بولنے سے پہلے ہی انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے دونوں کو باہر جانے کا کہا تھا۔ دونوں الٹے قدموں واپس پلٹ گئے تھے۔”جب آپ کی بیٹی استاد اور شاگرد کے قابلِ احترام رشتے کا تقدس پامال کرنے پر تلی ہوئی ہو تو میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چنگاری آگے بڑھ کر پورے آشیانے کو بھسم کر دے۔“ انھوں نے عجیب سے انداز میں کہتے انھیں اپنی کرسی پر ہی پہلو بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔”کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟“ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ بختاور نے ایسا کیا کر دیا تھا کہ ان جیسے مشفق استاد کو اس طرح سے بات کرنے کی نوبت آ گئی تھی۔ ان کی الجھن پریشانی بن کر ان کے لہجے سے عیاں ہوئی تھی۔”میں نے بہت کوشش کی تھی کہ اس قصے کو راکھ میں دبی چنگاری کی مانند دبا رہنے دوں اور ہوا نہ دوں کیوں کہ ایسے معاملات کو جتنی ہوا دی جائے وہ اتنا ہی بھڑکتے اور اپنی زد میں آئے ہر فرد کو بھی بھڑکاتے اور جلا کر رکھ کر دیتے ہیں۔“ عباد بدر ان کی پریشانی بھانپ کر پہلے کی نسبت قدرے نرمی سے مخاطب ہوئے تھے اور نپے تلے لفظوں میں انھیں ساری بات بتانے لگے تھے۔”آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھائیے ورنہ مجھے خود اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانی پڑے گی۔“ غصے کی شدت سے شبیر حقانی کا تنفس بڑھ گیا تھا۔ دائیں کنپٹی کی رگ پھول کر پھڑکنے لگی تھی۔”میری بیٹی ایسی نہیں ہے پروفیسر صاحب۔۔!“ انھوں نے پورے یقین سے کہتے انھیں چپ کروایا تھا۔”وہ نادان اور کم عقل ہو سکتی ہے لیکن احمق نہیں جو اپنی عزت کو روندنے والے کام کر بیٹھے۔ یقیناً آپ نے ہی ایسا کچھ کیا ہو گا۔ ہماری تاریخ میں استاد کی طرف سے طلبہ کو ہراس کرنے کے قصے بھرے پڑے ہیں۔“ ان کا مضبوط لہجہ۔۔۔ عباد بدر صاحب کا پورا وجود گویا زلزلوں کی زد میں آیا تھا۔ وہ کیا سوچے بیٹھے تھے اور ہو کیا گیا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭(جاری ہے)