قسط 11
ہسپتال کا وہ پرسکون مگر سنجیدہ سا کیبن، جہاں ہمیشہ پروفیشنل ماحول چھایا رہتا تھا… آج ایک عجیب سی کشمکش اور خاموش تناؤ اسے اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔کمرے میں مدھم روشنی جل رہی تھی، دیوار پر لگی میڈیکل ڈگریاں نفاست سے اپنی جگہ موجود تھیں، اور میز پر رکھی چند فائلیں بتا رہی تھیں کہ یہاں صرف ذمہ داری نبھائی جاتی ہے۔امانی ملک نے سفید کوٹ پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں فائل تھی، اور چہرے پر حسبِ معمول سنجیدگی اور وقار تھا۔ لیکن… دل کی دھڑکن تیز تھی۔ وہ جانتی تھی کہ سامنے بیٹھا شخص آج کسی اور ہی ارادے کے ساتھ آیا ہے۔کائد غزنوی…سیاہ کوٹ پینٹ میں ملبوس، کشادہ سینہ، آنکھوں میں عجب سی شوخی اور پراسرار گہرائی لیے، پرسکون انداز میں صوفے پر بیٹھا تھا۔وہ کسی مریض کی طرح نہیں، جیسے کسی شکار کی تاک میں بیٹھا ہو۔امانی نے گلا صاف کیا اور پیشہ ورانہ انداز اپناتے ہوئے بولی،”کائد صاحب، آپ کی رپورٹس بالکل کلیئر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ویسے کوئی مسئلہ نہیں ، پھر کیوں بار بار بے فضول ٹیسٹ کروانے آ جاتے ہیں؟ اس کی آواز میں صاف الجھن تھی۔کائد نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔”آپ شائد غلط ہسپتال میں وقت ضائع کر رہے ہیں، آپ کو کسی سائکائٹریس کے پاس جانا چاہیے، تا کہ آپ کو دماغ و زندگی نارمل ہو سکے”۔کائد غزنوی کی مسلسل مسکراہٹ پر وہ جل کر بولی”اسی لیے تو آیا ہوں۔۔۔زندگی نارمل کرنے کے لیے۔”امانی نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔”کیا مطلب؟”کائد نے دونوں ہاتھ میز پر رکھے، ذرا آگے جھکا اور دھیرے سے کہا ، “میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، ڈاکٹر امانی ملک”کمرے کی فضا جیسے جم گئی۔امانی کے ہاتھ سے فائل گر گئی۔ وہ شاک کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہ گئی۔ پھر اس کے اندر غصے کا لاوا پھٹ پڑا۔”آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے چیخی۔”یہ بات آپ نے سوچ بھی کیسے لی کہ میں آپ سے شادی کروں گی؟”کائد کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ وہ سکون سے اٹھا، اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے ہوئے سامنے آ کھڑا ہوا۔”صرف سوچا نہیں ہے، امانی، فیصلہ کیا ہے۔ اور میں اس فیصلے پر قائم ہوں۔”