Classic Web Special

Dilbar Miyane by Sara Urooj Episode 11

“مسٹر کائد غزنوی!!”امانی کی آواز تیز ہوئی۔ “آپ کو واقعی دماغ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے، جو اس قسم کی فضول باتیں کر رہے ہیں”کائد نے ہنسی دبانے کی ناکام کوشش کی اور دھیرے سے بولا، “دماغ کے ڈاکٹر کی تو نہیں پتہ… البتہ ایک ڈاکٹر کی ضرورت ضرور ہے، جس کا نام ہے ڈاکٹر امانی ملک”آخری جملہ کہتے ہوئے اس کا لہجہ خمار آلود اور شوخ ہو چکا تھا۔”آپ کو ذرا بھی شرم نہیں آ رہی؟ ایک جوان بیٹے کے باپ ہو کر ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ اس عمر میں آپ کا دماغ چل گیا ہے… واقعی بڈھے ہو گئے ہیں”کائد نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، آنکھوں میں شوخی ناچ رہی تھی۔”جوان بیٹے کی تو خیر ہے، لوگ آج بھی مجھے اس کا بڑا بھائی سمجھتے ہیں۔”اس نے قدم آگے بڑھایا۔”اور رہی بات بڈھا ہونے کی… محترمہ! آپ نے کائد غزنوی کو ابھی ٹھیک سے دیکھا کہاں ہے؟ ایک بار ہمارے سحر میں کھو کر تو دیکھیں… دنیا نہ بھلا دی تو کہیے گا۔”وہ آہستگی سے آگے بڑھے اور اس کے دونوں بازو تھام کر اپنے روبرو کر لیا۔امانی خفت سے رخ پھیر گئی، نظریں چرانے لگی لیکن دل کی دھڑکن بے قابو ہو چکی تھی۔”کائد، پلیز۔۔۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کریں۔”اب کی بار اس کی آواز میں بے بسی تھی۔ “میری ایک بھتیجی ہے جو میری سرپرستی میں رہتی ہے… اس پر کیا اثر پڑے گا؟”کائد اس کے لبوں سے اپنا نام سن کر جیسے چند لمحے مسمرائز رہ گیا، پھر مسکرا کر گویا ہوا،”ہم نکاح کر رہے ہیں گناہ نہیں کر رہے۔ کیا شادی، خوشی، سکون ان سب پر آپ کا حق نہیں ہے؟”امانی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، “آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟ مجھے نہیں کرنی شادی، نکاح وغیرہ آپ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ میں گارڈز سے کہہ کر آپ کو یہاں سے نکلوا دوں”کائد ایک پل کو رکا، آنکھوں کی شوخی کم نہ ہوئی۔”نکلوا دیں، مگر یہ جان لیجیے، میں واپس آؤں گا بار بار آؤں گا، یہاں نہیں تو آپ کے دل کی دہلیز پر”امانی نے بمشکل خود پر قابو پایا۔ دل چاہ رہا تھا وہ زور سے چیخے یا رونا شروع کر دے۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی لیکن وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چہرہ سخت کیا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے انٹرکام کا بٹن دبایا۔”گارڈز! فوراً میرے کیبن میں آئیں”آواز میں کپکپاہٹ تھی، مگر مضبوطی کا تاثر دینے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔کائد غزنوی اپنی جگہ پر سکون کھڑے رہے، جیسے انہیں معلوم تھا کہ یہ سب بے کار ہے۔ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، آنکھوں میں جیت کا غرور۔”واہ ڈاکٹر صاحبہ، اتنا خوف؟”وہ آہستگی سے چلتے ہوئے میز کے پاس آئے ، انگلیوں سے میز پر ہلکی دستک دی۔”ڈرنا چھوڑ دیں۔ میں زبردستی نہیں کر رہا، نکاحِ محبت کر رہا ہوں”امانی کا ضبط ٹوٹ گیا۔”آپ کی محبت میرے لیے بوجھ ہے”آواز بلند تھی، آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔”بوجھ؟”کائد نے آہستگی سے سر ہلایا۔تبھی دروازہ کھلا، دو گارڈ اندر داخل ہوئے۔امانی نے لرزتے ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا، “انہیں یہاں سے باہر لے جائیں”۔۔۔۔ چند پر رکی پھر ضبط سے کہا , “عزت سے”۔گارڈز کائد غزنوی کی طرف بڑھے، مگر کائد نے ایک گہری نظر امانی پر ڈالی،اور ہولے سے مسکرا کر کہا ،”ٹھیک ہے جا رہا ہوں۔”پھر پلٹ کر گارڈز کو دیکھا ، “تم دونوں ہاتھ مت لگانا مجھے۔۔۔شہادت کی انگلی اٹھائے وارن کیا اور پھر بولے، خود ہی جا رہا ہوں۔”کمرے سے نکلتے وقت، دروازے کی چوکھٹ پر ایک لمحے کو رکے اور بغیر پلٹے کہا ، “دل کی اتھاہ گہرائیوں میں کہیں نا کہیں میرا نام لکھ چکی ہو اور بہت جلد، تمہیں خود اس کا اعتراف ہوگا”دروازہ بند ہوا،کمرے میں خاموشی چھا گئی۔امانی نے خود کو کرسی پر گرا لیا۔دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔”یا اللہ یہ آزمائش کیوں؟”لبوں پر آہستہ سی سرگوشی تھی۔لیکن دل کے اندر کہیں نہ کہیں اس کی بات گونج رہی تھی ، ”تم دل کی گہرائیوں میں میرا نام لکھ چکی ہو…”سانس لینا بھی بھاری ہو رہا تھا۔اس کے اندر ایک طوفان اٹھ رہا تھا، مگر وہ ہمیشہ کی طرح اسے دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔لیکن۔۔۔۔ دل کے کسی کونے میں دبی پرانی دردناک یاد نے اس لمحے سر اٹھایا ، ایک ایسا ماضی، جسے وہ دفن کر چکی تھی،  یا کم از کم کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ شادیانے ، وہ خوشیاںوہ قہقے اور پھر یکدم ان قہقوں کا ماتم بننا،پھول و روشنیوں کی سجاوٹ کا خون کی نہر میں بدلنا۔۔۔۔آہہہہ۔۔۔!! سر پر ہاتھ رکھے وہ چیخی تھی ، مگر یہ چیخ بیرونی نہیں اندورنی تھی جو امانی ملک کے آنسوں کی صورت باہر آرہے تھے۔امانی ملک نے اپنی لال سرخ ہوتی آنکھوں کو کھولا”نہیں۔۔۔ میں دوبارہ ویسی غلطی نہیں کر سکتی”وہ خود سے سرگوشی میں بولی۔مگر کائد غزنوی کی آنکھوں کی وہ شوخی ،ان کی باتوں کا یقین ، ان کی ضد ،اس کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچا گئی۔اس نے سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔”یا اللہ میں کیوں کمزور ہو رہی ہوں؟ کیوں اس شخص کی باتوں نے دل میں کوئی لرزش پیدا کی؟”دل کی گہرائیوں سے ایک اور صدا اٹھی۔۔۔کیا اس کا ماضی پھر اس کے سامنے آرہا ہے؟ ایک لمحے کو اسے لگا جیسے کائد کی بات سچ ہو،”محبت کا بوجھ اتارا نہیں جاتا ، دل میں بس جاتا ہے…”وہ بے آواز سسکنے لگی۔آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے۔تبھی دروازہ ہلکے سے کھلا، نورا اندر آئی، امانی کی بھتیجی۔ چہرے پر الجھن اور آنکھوں میں حیرت تھی۔”پھوپھو… آپ رو رہی ہیں؟”نورا کی نرم آواز نے امانی کو چونکا دیا۔امانی نے تیزی سے چہرہ موڑ کر آنسو صاف کیے، اور مصنوعی مسکراہٹ سجا لی۔”نہیں ! بس تھوڑی طبیعت بوجھل ہو رہی تھی۔”مگر نورا کی آنکھیں اس کا جھوٹ پکڑ چکی تھیں۔وہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے امانی کے قریب آ بیٹھی اور ان کے ہاتھ تھام لیے۔”پھوپھو میں نے کائد غزنوی کو ہسپتال سے نکلتے دیکھا ہے۔وہ آپ کے کیبن سے ہی جا رہے تھے ، نا؟”امانی کا چہرہ سُن پڑ گیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہیپھر اثبات میں سر ہلا دیا۔نورا کی آنکھوں میں الجھن اور بھی گہری ہو گئی۔”وہ یہاں کیوں آئے تھے؟وہ شادی کرنا چاہتا ہے مجھ سے۔۔۔۔ امانی کی بات سن کر نورا چند پل ساکت رہی پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور اس کو گلے لگا لیا۔”یہ تو بہت اچھی بات ہے”۔۔۔۔۔نورا کی بات سنتی وہ ، اس کی آنکھوں میں ایک پل کو نمی پھر سے تیر گئی۔ دل میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔نورا نے آہستگی سے خالہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔”پھوپھو… آپ ہمیشہ سب کا سہارا بنتی ہیں۔کبھی کبھی آپ بھی کسی پر بھروسہ کر کے دیکھیں۔آپ کب تک اپنے ماضی کی زنجیروں میں بندھی رہیں گی؟”امانی کا دل منجمد گیا۔ وہ کیسے بتاتی۔۔۔کیسے اپنے زخم دکھاتی؟ماضی کے زخم آج بھی ناسور بن کر دل میں موجود تھے۔وہ نم آنکھوں سے نورا کو دیکھتے ہوئے بس اتنا کہہ پائی ، “کچھ زخم کبھی نہیں بھرتے نورا وہ صرف چھپائے جاتے ہیں”نورا نے پھوپھو کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔شاید کبھی زندگی ان زخموں پر مرہم بھی رکھ دیتی ہے۔ یقیناً وہ وقت اب آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے”امانی کا دل ایک لمحے کو لرزاکیا واقعی؟ کیا قسمت نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا تھا؟ لیکن کیا وہ ہمت کر پائے گی دروازہ کھولنے کی؟اس نے بہت مشکلوں سے خود کو اس خول میں قید کیا تھا۔۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ تبھی اس کا فون بجا۔اسکرین پر “کوئی ان نون نمبر ” تھا۔ امانی نے لرزتے ہاتھوں سے فون اٹھایا۔ کان سے لگایا۔دوسری طرف وہی دل کو دھڑکا دینے والی بھاری آواز سنائی دی۔”ڈاکٹر امانی۔۔۔۔۔۔کہا تھا نا، محبت کرنے والے صرف باتیں ہی نہیں کرتےبلکہ ،ثابت بھی کرتے ہیں۔۔۔۔اب بس آپ کے قدموں میں آنا باقی ہے، کل ملاقات ہوگی”۔۔۔۔۔اس جملے کے بعد فون بند ہو چکا تھا۔لیکن امانی کے اندر طوفان اٹھا گیا۔نورا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔”پھوپھو… کس کا فون تھا؟”وہ ہولا سا مسکرائی اور پھر بولی تو لہجے میں یاسیت صاف نمایاں تھا۔”ایک آزمائش کا۔۔۔✨💓

Zoila

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *