رات کا سناٹا تھا۔ چاند کی روشنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی، کمرے میں ہلکی نیلی روشنی بکھر گئی۔ دیوار پر لگی گھڑی بارہ بجا رہی تھی، مگر امانی کے لیے وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کمرے کے ایک کونے میں پڑی میز تک پہنچی، جہاں ایک تصویر رکھی تھی۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے تصویر اٹھائی۔
اس تصویر میں اس کے والد، والدہ، بھائی، بھابھی اور وہ خود ایک ساتھ کھڑے تھے۔ سب مسکرا رہے تھے، جیسے زندگی ہمیشہ خوشیوں سے بھری رہے گی۔ اس کی ماں نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا، جیسے ہمیشہ اس کا سایہ بنی رہیں گی۔ اس کا بھائی حسین شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اس کے قریب کھڑا تھا، جیسے وہ ہمیشہ اس کی حفاظت کرے گا۔
لیکن وہ سب اب اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ امانی کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی۔ اس نے آہستہ سے تصویر پر ہاتھ پھیرا، جیسے لمس کے ذریعے وہ اپنوں کی قربت کو محسوس کرنا چاہتی ہو۔ اچانک، اس کے ذہن میں ماضی کا دروازہ کھلنے لگا۔ وہ دردناک دن، جس نے اس کی پوری دنیا جلا کر راکھ کر دی تھی۔
اس کے اپنوں کو اس سے دور جا دھکیلا۔۔۔۔
کچھ سال قبل
ہسپتال کے سفید، برف جیسے ٹھنڈے فرش پر چلتے قدموں کی چاپ ماحول کی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ دیواروں پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک اور کہیں دور سے آتی کسی عورت کی سسکیاں ایک بھیانک ویرانی کا احساس دلا رہی تھیں۔ روشنی کی سفید ٹیوب لائٹس نے ماحول کو اور بھی سرد کر دیا تھا۔
امانی، جس کا روز کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے کالج کے بعد سیدھا یہاں اپنے والد فواد ملک سے ملنے یہاں آتی تھی، چونکہ وہ ابھی کسی پیشنٹ کے ساتھ مصروف تھے اس لئے وہ ان کے انتظار میں کوریڈور میں کھڑی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں اردو کی کتاب پکڑ رکھی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے دوپٹے کو درست کر رہی تھی۔ ہسپتال کی ہوا میں عجیب سا بوجھل پن تھا، جیسے یہاں ہر سانس کسی درد کا بوجھ اٹھا رہی ہو۔ وہ کتاب میں کھوئی اپنی ہی دھن میں چل رہی تھی کہ سامنے سے آتے وجود سے ٹکراؤ ہوا، وہ دونوں اپنی اپنی جگہ ساکت ہوئے۔
امانی کی نظر اٹھیں اور سامنے کھڑے شخص پر ٹھہریں۔ زوہیب کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں، جیسے وہ کئی گھنٹوں سے رویا ہو یا شاید صدمے میں ہو۔ وہ جذبات سے بھرا تھا، لیکن اس کی سنجیدگی اسے روک رہی تھی کہ وہ کسی کے سامنے اپنی تکلیف ظاہر کرے۔ اس کے سخت زاویوں والے چہرے پر بے انتہا ضبط واضح تھا، مگر اس ضبط کے نیچے چھپا لاوا ابلنے کو تیار تھا۔
امانی نے غیر ارادی طور پر اس کی آنکھوں میں جھانکا وہاں خاموشی سے چیختا ہوا دکھ تھا، ایک ایسا کرب جو لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتا تھا۔
“دیکھ کر نہیں چل سکتیں؟” اس کی بھاری، تھکی ہوئی آواز میں غصہ کم اور درد زیادہ تھا۔
امانی ایک لمحے کے لیے چپ رہی، پھر نظریں چراتے ہوئے پیچھے ہٹی۔
“معذرت میں بس۔۔۔” اس کے الفاظ وہیں رک گئے جب زوہیب کی نظریں اس پر گڑ گئیں۔
“بس کیا؟” زوہیب کی پیشانی پر بل آئے، جیسے اسے کسی کے افسوس، کسی کی معذرت کی ضرورت نہ ہو۔
امانی کو احساس ہوا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں جو تسلی چاہتے ہیں، یہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی اذیت کا زہر اندر ہی اندر پینے کے عادی ہوتے ہیں۔
زوہیب کی نظریں اس کے چہرے پر جم گئیں، اور ہاتھ کی گرفت مزید سخت ہو گئی۔
امانی نے غیر ارادی طور پر ایک قدم پیچھے ہٹایا، لیکن پھر خود کو سنبھالا۔
“معذرت، میں دیکھ نہیں سکی”
زوہیب نے ایک تلخ ہنسی کے ساتھ نظریں چرائیں۔
“دیکھنے کی ضرورت ہی کب ہے؟ تمہارے جیسے لوگ تو ویسے بھی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔”
امانی نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔
“مطلب؟”
زوہیب نے اپنی مٹھیوں کو سختی سے بھینچا
“مطلب یہ کہ اگر تم لوگوں کا تعلق اتنے بڑے ہسپتال سے ہے تو انسانیت بھی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن یہاں صرف پیسہ دیکھا جاتا ہے، کسی کے آنسو نہیں” اس کی آواز زہر آلود تھی۔
امانی کا دل ایک لمحے کو زور سے دھڑکا
“تمہارا کوئی عزیز…؟”
زوہیب نے غصے سے اس کی طرف دیکھا، جیسے وہ کوئی بہت بڑا سوال کر بیٹھی ہو۔
“بھائی تھا میرا تڑپتا رہا، مرتا رہا لیکن تمہارے ہسپتال کے دروازے اس وقت نہیں کھلے جب ہمیں ضرورت تھی۔ تمہارے ڈاکٹرز نے ایک نظر ڈالنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ ہمارے پاس ایڈوانس فیس کے پیسے نہیں تھے”
امانی کا رنگ فق ہو گیا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”
“کیا واقعی؟” زوہیب نے طنز سے مسکرا کر اسے دیکھا۔ “تمہیں نہیں معلوم، یا تم جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی ہو؟”
امانی کے لب ہلکے ہلکے لرزے، وہ کچھ بولنا چاہتی تھی، مگر الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ شائد لیب کوٹ پہننے کی وجہ سے اسے ڈاکٹر سمجھ رہا تھا۔
“اگر یہ ہسپتال کسی مریض کی جان نہیں بچا سکتا، تو پھر صرف ایک عمارت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور میں وہ عمارت گرا دینا بہتر سمجھتا ہوں جس نے میرے بھائی کی سانسیں خریدنے سے انکار کیا تھا”
زوہیب کے الفاظ کسی پتھر کی طرح سیدھا امانی کے دل پر لگے۔
وہ بنا مزید کچھ کہے آگے بڑھ گیا، اور امانی اپنی جگہ کھڑی رہ گئی، جیسے اس کی دنیا لمحہ بھر میں بدل گئی ہو۔
یہ پہلی ملاقات تھی ایک ایسا ٹکراؤ، جس کے اثرات شاید بہت دور تک جانے والے تھے۔ ایک لمحہ گزرا، زوہیب نے رخ موڑا اور دوبارہ قدم بڑھا دیے۔
امانی کی نظریں زوہیب کی پشت پر جمی رہ گئیں، وہ رفتہ رفتہ ہسپتال کے دروازے سے باہر نکل گیا تھا۔ مگر اس کے الفاظ اب بھی گونج رہے تھے، جیسے کسی نے اندر ایک طوفان سا برپا کر دیا ہو۔
“یہ ہسپتال اگر کسی مریض کی جان نہیں بچا سکتا، تو یہ صرف ایک عمارت کے سوا کچھ بھی نہیں۔”
امانی نے بے چینی سے اپنے دوپٹے کا کنارہ مٹھی میں دبایا۔ وہ ہسپتال کے مالک ملک صاحب کی بیٹی تھی، اس ہسپتال کو ایک بہترین طبی ادارہ سمجھا جاتا تھا، جہاں ہر قسم کی جدید سہولیات موجود تھیں۔ مگر آج ایک شخص نے آ کر اس کے یقین کو جھنجھوڑ دیا تھا۔
کیا واقعی یہاں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا؟ کیا ہسپتال میں پیسہ انسانیت سے زیادہ اہم تھا؟
اس کے ذہن میں سوال ابھرنے لگے، مگر ان کے جوابات کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔