بادل چھٹے تھے اور پھر سے نگاہوں میں آئی تھی رشیا کی وہی اونچی عمارت،وہی چاند اور وہی کمرے میں ہنستا،روتا وجود۔۔۔
ہنستے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور کمرے میں رکھے کمپیوٹر کے سامنے آبیٹھا۔اس نے نئی نئی آئی ڈی بنائی تھی فیس بک پر اور ساتھ ہی “دی اورکا” نام سے ایک گروپ بنایا تھا۔زندگی کی الجھنوں اور کثافتوں میں یہ چند گھنٹے تھے رات کے جو اسے سکون میسر آتا تھا۔گروپ میں کل تینتیس لوگ شامل تھے جو اسی کی طرح اپنے گھر والوں یا قریبی لوگوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے تھے اور یہاں آکر ایک دوسرے سے اپنا دل ہلکا کر لیا کرتے تھے۔یہ گروپ اس نے بنایا ہی ایسے لوگوں کیلیے تھا،اپنے جیسے لوگوں کیلیے۔
اب یہ اس کا وقت تھا،اس کا ذاتی وقت،اس کیلیے خوشی و مسرت کا وقت،رات کا وقت،وہ اندھیروں کا مسافر تھا جو اندھیروں میں ہی غرق رہتا تھا۔روشنی سے اسے کوئی غرض نہ تھی کیونکہ روشنی اسے حقیقت دکھاتی تھی جو اس کیلیے برداشت کے قابل نہ تھی جبکہ اندھیرا اسے وہ تصاویر اور مناظر دکھاتا تھا جو اسے لبھاتے تھے۔
“کیسے ہو سب لوگ اور آج کیا کیا ہوا؟”اس نے پوسٹ کی اور آرام دہ انداز میں بیٹھ کر کرسی پر جھولنے لگا۔
کچھ دیر گزری کہ لوگ جمع ہو کر حال احوال سنانے لگے۔
“ٹھیک ٹھاک تم سناؤ؟”
“ہاں ٹھیک۔۔۔”
“بس یار ویسے ہی تم کیسے ہو؟”
“دمتری تم بہت ہاٹ ہو یار۔۔۔”یہ تبصرہ لڑکی کی جانب سے تھا۔
یہ پڑھ کر اس کے چہرے پر بےساختہ مسکراہٹ ابھری اور اس نے اس لڑکی کو جواباً شکریہ کہا۔یہ لوگ اسے عزیز تھے،بےحد عزیز۔۔۔وہ تینتیس اہم لوگ تھے اس کیلیے۔
وہ لوگ اس سے باتیں کرتے تھے،اس کے دکھ سکھ سنتے تھے،اس کی تعریفیں کرتے تھے اور تو اور اسے اپنے مسائل بتاتے تھے اور ان کا حل مانگتے تھے جیسے وہ کوئی بہت اہم شخصیت ہو۔اسے یہ محبت،یہ اپنا پن بہت اچھا لگتا تھا۔یہ وہ کمی تھی جو وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ محسوس کیا کرتا تھا۔ایک تشنگی تھی اس کی زندگی میں جو ان لوگوں سے مل کر مٹ گئی تھی۔وہ سکرین کو بغور دیکھ رہا تھا۔وہاں ابھی بھی بہت اچھے اچھے تبصرے موصول ہو رہے تھے اور اس کی سکرین دھندلی ہو گئی۔
“اگر وہ سب اتنے ہی اچھے تھے تو انہیں مارا کیوں؟”حال میں لوٹا تو اندھیرے سے آواز گونجی۔مذاق اڑاتی آواز جو اس کے آنسوؤں اور محبت کا مذاق اڑا رہی تھی۔
“میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ میں نے نہیں مارا ان میں سے کسی کو۔”وہ بھی سخت ہوا۔
“اچھا تو پھر وہ لوگ خود بہ خود مر گئے۔”اندھیرا پھر سے طنزیہ ہوا۔
“نہیں۔۔۔”ایک لفظ آیا دمتری کی جانب سے اور آواز میں صدیوں کی تھکن تھی۔
“وہ خود نہیں مرے،انہیں دنیا نے مار دیا۔تم لوگوں نے مار دیا۔سو کالڈ ہیروز نے مار دیا۔سب کو ہیرو چاہیے تو ولن کہاں جائیں”دمتری کی آواز میں طنز تھا۔
“میں نے ایک چیٹ گروپ بنایا تا کہ ہم سب زیادہ قریب آ سکیں۔ایک دوسرے کو اچھے سے جان سکیں۔”وہ پھر سے ماضی کے اوراق پلٹنے لگا۔
“میں نے ایک چیٹ گروپ بنایا ہے،کیا تم سب اس میں ایڈ ہونا چاہو گے؟”یہ دو تین راتوں بعد کا قصہ تھا۔
“ہاں۔۔۔”
“پلیززز۔۔۔”
“یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔”
“ہاں یار جلدی۔۔۔۔”اس نے پوسٹ لگائی اور حسب توقع ہر ایک شخص کا کمنٹ ایک ایک کر موصول ہوا۔یوں وہ تینتیس افراد ایک میسنجر گروپ میں شامل ہو گئے۔
“وہاں ہم لوگ روز مرہ کی باتیں کیا کرتے تھے۔وہاں ہم سب نے ایک دوسرے کو اچھے سے جانا تھا۔”حال میں اس کی ٹوٹی آواز گونجی۔
“وہ سب اچھے لوگ تھے۔مجھ سے پیار کرتے تھے،میں بھی ان سے پیار کرتا تھا۔ہم ایک جیسے تھے۔۔۔سب کے سب لوزرز جنہیں سو کالڈ ونرز نے ریجیکٹ کر دیا تھا۔”ایک طنزیہ ہنسی اس کے لبوں پر آئی
“میں نے لوزرز کی دنیا بنائی تھی۔”وہ خلا میں دیکھتے ہوئے پھر سے ماضی کے مناظر میں کھونے لگا۔
“میں نے پیور سولز کے نام سے گروپ بنایا تھا اور وہاں معصوم روحوں کو اکھٹا کیا تھا۔وہ سب معصوم تھے۔”وہ پھر سے ماضی کے واقعات سنانے لگا اور اندھیرے میں بیٹھا وجود ہمہ تن گوش تھا۔
“اس گروپ میں کوئی رول نہیں ہے سوائے ایک کے کہ کوئی کسی سے نفرت نہیں کرے گا۔سب پیار سے رہیں گے۔”اس نے پیغام بھیجا،نفرت کی دنیا میں محبت کا پیغام۔
سب راضی بہ رضا اور یوں یہ گروپ ایک اصول کے تحت آگے بڑھا۔گروپ کے مالک اور وہاں کے لوگوں کی باتیں شروع ہوئیں۔
“آج میرے گھر والوں نے پھر میری انسلٹ کی۔جاب نہیں مل رہی تو میں کیا کروں؟کوشش کر تو رہا ہوں۔”ایک پیغام روتی ہوئی ایموجی کے ساتھ سکرین پر چمکا تو گروپ کا مالک افسردہ ہوا۔
“ارے جاب کا بھی کیا ہی فائدہ ہے یار؟میں جاب کرتا ہوں مگر سیلری کم ہے تو بیوی باتیں سناتی ہے۔”ایک اور دکھڑا،ایک اور داستان۔
“میری گرل فرینڈ نے تو بریک اپ ہی کر لیا ہے کیونکہ میری سیلری کم تھی۔”کسی نے دہائی دی۔
“لڑکیوں کی زندگی بھی کہاں آسان ہے۔ہر جگہ ہراس کیا جاتا ہے ہمیں۔دل خون کے آنسو روتا ہے۔”ایک لڑکی نے بھی اپنے دکھ بیان کیے۔
“میں تو اپنے قد کی وجہ سے بچپن سے بُلی ہوتا آیا ہوں۔اپنے ہی پیرنٹس انسلٹ کرتے ہیں سب کے سامنے۔”یہ پیغام دل کو لگا تھا۔اس کی بھی تو یہی کہانی تھی۔
بچپن سے ماں اور بھائی کے ہاتھوں ذلیل ہوتا آیا تھا اور نہ صرف ذلت بلکہ مار کٹائی بھی سہی تھی۔آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے اور وہ مار یاد آنے لگی۔وہ کرسی سے اٹھا اور بالکونی میں آکھڑا ہوا۔وہ سیاہ بنیان پہنے ہوئے تھا جس سبب اس کے کسرتی بازو نمایاں ہو رہے تھے اور ان پر جا بجا کٹس لگے ہوئے تھے۔یہ زخم کیسے لگے تھے اسے آخر؟
ہوائیں چل رہی تھیں اور اس کے اندر جلتی آگ کو بھڑکا رہی تھیں۔یہی آگ ماضی سے حال میں کھینچ کر لائی جہاں ایک آواز گونج رہی تھی۔
“جب تم نے اتنا اچھا گروپ بنایا تھا اور سب کو نفرت سے بچانا مقصد تھا تو پھر تم نے ان سب کو مارا کیوں؟”اندھیرے میں بیٹھے شخص کی آواز میں تعجب تھا۔
“میں نے انہیں نہیں مارا بلکہ انہیں وہاں پہنچایا ہے جہاں انہیں ابدی محبت ملے گی۔کری ایٹر کی محبت،اور کری ایٹر کی محبت کری ایچر کی محبت سے بہتر ہے۔”اس نے پر زور الفاظ میں نفی کی اور پھر سے ماضی میں جھانکا۔
اسی طرح سے زندگی گزر رہی تھی۔وہ راتوں کو جاگتا تھا اور دن میں سوتا تھا۔اسے روشنی سے خوف آنے لگا تھا۔روشنی اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے کی بجائے،چبھن دیتی تھی تبھی وہ اپنے کمرے کو گہری نیلی روشنی سے روشن رکھتا تھا کہ جس کے گہرے رنگ کے سبب وہ روشنی نہیں اندھیرا محسوس ہوتی تھی۔دن کے اوقات وہ سو کر گزارتا تھا تا کہ سورج کو دیکھنا ہی نہ پڑے۔
اس کے بھائی کا بھی وہی معمول تھا۔اچانک کسی بھی دن کسی بھی بات پر غصہ چڑھتا اور وہ اس کو بری طرح تشدد کا نشانہ بناتا پھر جب تھک جاتا تو اسے چھوڑ کر چلا جاتا۔اس کے جانے کے بعد وہ روتا پھر روتے ہوئے ہی ہنستا چلا جاتا۔دوسری جانب اس کی ماں تھی جو اب بوڑھی ہو گئی تھی سو کسی بھی معاملے میں دلچسپی نہ لیتی تھی اور یوں بھی اس کی ماں کے مطابق لیو ٹھیک اور وہ ہمیشہ سے غلط تھا۔
وہ بھی ایسی ہی رات تھی کہ جب کمرہ نیلگوں اندھیرے میں ڈھلا ہوا تھا اور وہ بیڈ کے نزدیک لیٹا سسک رہا تھا۔کوئی بھی اس کی پکار سننے والا نہیں تھا سو وہ تنہا ہی ان حالات سے نمٹ رہا تھا۔اس کے وجود پر اپنے اشتعال کے نشانات چھوڑ کر اس کا بھائی ابھی ہی کمرے سے نکلا تھا۔وہ کچھ دیر رویا پھر اٹھ کھڑا ہوا۔نیلگوں اندھیرے میں حرکت کرتے،اپنے کمپیوٹر کی میز کے قریب آکر رکا اور وہاں رکھے سپیکر کا بٹن دبایا۔ایک دھن پوری فضا میں گونجنے لگی اور وہ دونوں ہاتھوں کو سیدھ میں دائیں بائیں سمت لہراتے ہوئے چٹکیاں بجانے لگا۔اس اندھیرے میں بھی اس کے چہرے کا سکون اور اطمینان واضح دیکھا جا سکتا تھا۔وہ طمانیت جو یہ دھن سنتے ہوئے اس کے وجود پر طاری ہو رہی تھی اور اسے ہوش و خرد سے بیگانہ کر رہی تھی۔وہ خوش تھا،بےحد خوش۔۔۔
ماضی کا نیلگوں اندھیرا چھٹا اور اس نے خود کو روشنی میں پایا۔دل خراب سا ہوا مگر پھر بھی برداشت کر گیا۔
“اچھا تو یہ میوزک ایڈیکٹ ہے تبھی تو لائیو میں اور ٹاسک میں بھی میوزک سننے کی فرمائشیں تھیں۔”اندھیرے میں بیٹھے شخص کو گیم کے ٹاسک یاد آئے۔
“پھر آگے کیا ہوا؟؟”اندھیرے سے سوال آیا تو اس آدمی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور سوچنے لگا۔سوچتے سوچتے پھر سے ماضی کے در وا ہونے لگے۔
“یار میں تو اس زندگی سے تنگ آگیا ہوں۔”رات کا وقت تھا اور وہ تنہا تھا۔کمپیوٹر کی سکرین روشن تھی اور اسی پر یہ پیغام آیا تھا۔اس کی نیلی آنکھیں چمکیں اور وہ مسکرایا پھر کی بورڈ پر انگلیاں متحرک ہوئیں۔
“کیوں کیا ہوا؟”اس نے سوال کیا۔
“کچھ نہیں یار۔روز روز کی ذلت سے اچھا ہے بندہ مر جائے اور سکون پائے۔”دکھ کی عکاسی کرتے الفاظ پڑھ کر اسے تعجب ہوا تبھی کسی اور کا پیغام موصول ہوا۔اس نے بھی خیر خیریت دریافت کی تھی۔انگریزی میں لکھے جملے سکرین پر اوپر کی جانب سفر کر رہے تھے۔
“گرل فرینڈ سے لڑائی ہوگئی ہے۔وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔میں ٹوٹ گیا ہوں اور موت بھی نہیں آتی۔”اس نے غصے والی ایموجی کا سہارا لیا تا کہ جذبات اچھے سے بیان ہو سکیں۔
“تو انتظار کرو۔”گروپ کے مالک یعنی دمتری کا جواب آیا۔
“کس کا؟؟؟”سوال کیا گیا۔
“موت کا۔”جواب حاضر۔
“نہیں ہو رہا۔”دکھ شدید۔
“تو پھر؟؟”سوال میں آگے کے منصوبے کی بابت پوچھا گیا تھا۔
“پتہ نہیں سمجھ نہیں آرہا کیا کروں؟”اس شخص کے لہجے میں کرب تھا۔