Uncategorized

Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 17


دمتری سوچ میں پڑ گیا۔کچھ دیر وہ آنکھیں چھوٹی کیے سکرین کو دیکھتا رہا،بغور بنا پلکیں جھپکے۔وہ سوچ رہا تھا،سکرین کے پار موجود شخص کی پریشانی کا حل۔سکرین پر باقی لوگوں کے پیغامات بھی آنے لگے تھے جو اسے حل پیش کر رہے تھے تو کوئی انتقام کیلیے اکسا رہا تھا مگر وہ شخص خود میں انتقام کا حوصلہ نہیں پاتا تھا۔سب بالکل ٹھیک چل رہا تھا کہ تبھی سکرین پر ایک پیغام ابھرا اور اس شخص کی نیلی آنکھیں چمکیں۔
“ہاں یہ حل اچھا ہے۔۔۔یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں۔۔۔”اسے اپنے لیے بھی یہ مشورہ اچھا لگا۔پیغام میں لکھا تھا۔
“تم سوسائیڈ کر لو،ساری بات ہی ختم ہو جائے گی اور جب تم مر جاؤ گے تو تمہاری گرل فرینڈ کو بھی احساس ہو گا۔”اس بات پر اس نے بھی کی بورڈ پر انگلیاں چلانا شروع کیں تبھی اس دکھی شخص کا پیغام آیا۔
“لیکن یار سوسائیڈ کرنا آسان کام تھوڑی ہے،ہمت چاہیے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کیلیے۔میں کئی مرتبہ یہ سوچ چکا ہوں اور کرنے کی کوشش بھی کر چکا ہوں مگر مجھ سے نہیں ہو پاتا۔ہر بار بزدلوں کی طرح ہار مان لیتا ہوں۔”اس نے مایوسی کے عالم میں اپنی شکست قبول کی۔دمتری نے لکھتے ہوئے اپنے الفاظ مٹائے اور پھر سوچوں میں ڈوبا۔باقی لوگوں کے جواب آنا شروع ہو گئے۔
“یہ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو،اپنی جان لینا آسان نہیں ہوتا۔”
“میں بھی کوشش کر چکی ہوں مگر۔۔۔”
“میں تو خود سوچ رہا ہوں کہ پھانسی لگا لوں۔نہ زندگی ہو گی اور نہ ہی قرض داروں کا خوف۔۔۔”لوگوں کے ملے جلے تاثرات تھے۔وہ اپنے اپنے تجربات اور عزائم بیان کر رہے تھے۔اس بار زیادہ سوچنا نہیں پڑا،حل مل گیا تھا۔
“گائیز میرے پاس تم لوگوں کی پریشانی کا بہترین حل موجود ہے۔”سب کے آگے پیچھے جوش سے بھرے جملے سکرین پر چلنے لگے۔وہ مسکرایا۔
سبھی کو حل جاننا تھا اور اس کے پاس حل موجود تھا سو اس نے بتانا شروع کیا۔
“ہم لوگ ایک گیم کھیلیں گے۔۔۔”مسکراہٹ لبوں پر ٹہری اور وہی مسکراہٹ ماضی سے حال میں بھی واضح ہوئی۔
“اچھا تو پھر تم نے یہ گیم بنایا؟”اندھیرے میں بیٹھے شخص نے سوال کیا۔
اس نے ایک نظر اندھیرے کی سمت ڈالی پھر ترچھی مسکان لبوں پر سجائی اور اپنا بایاں ہاتھ گردن کی بائیں سمت رکھ کر گردن کو دائیں بائیں گھما کر چٹخایا۔
اندھیرے میں بیٹھا شخص سب دیکھ پا رہا تھا کہ مقابل کی سمت روشن تھی۔
“میں نے گیم بنایا اور لوگوں نے اپنی مرضی اور خوشی سے کھیلنا شروع کیا۔میں خود بھی ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔مجھے بھی سوسائیڈ کرنی تھی۔”وہ روشنی میں بیٹھا وجود گویا ہوا۔
“پھر کی کیوں نہیں؟”اندھیرے میں گم شخص نے پتے کی بات پوچھی تھی کیونکہ وہ تو زندہ بیٹھا تھا جبکہ اسے تو دو ہزار تیرہ میں ہی مر جانا چاہیے تھا۔
“پتہ نہیں۔شاید میں بزدل تھا تبھی۔۔۔”وہ کھوئے ہوئے لہجے میں کرب سے گویا ہوا۔
“لیو اور مام صحیح کہتے تھے کہ میں لوزر ہوں۔۔گیم میں وہی جیتا جس نے سوسائیڈ کی،وہ سب جیت گئے مگر میں۔۔۔”وہ اٹکا۔آنسوؤں کا گولہ حلق میں پھنسا۔
“میں ہار گیا کیونکہ میں نے سوسائیڈ نہیں کی۔۔۔آئی ایم آ لوزر۔۔۔”حلق میں پھندا اتارا اور پھر ہنسنے لگا۔
اندھیرے میں بیٹھے شخص کو اس کا پل پل بدلتا رویہ مضطرب کر رہا تھا۔کچھ کچھ اندازہ بھی ہو رہا تھا کہ اس سب کے پیچھے عوامل کیا تھے۔
“پھر گیم شروع ہوا۔۔۔”اس نے ہنسی روکی اور سنجیدگی سے ماضی کی جانب چل دیا۔وہ اب ساری معلومات باآسانی دے رہا تھا۔شاید اسے کسی سننے والے کی ضرورت تھی جو اسے سنے،اس کی داستان حیات جانے اور اس پر ہوئے مظالم کو سمجھے۔
“کیسا گیم؟؟”تقریباً سبھی نے آگے پیچھے یہی پوچھا تھا۔دمتری مسکرایا پھر لکھنا شروع ہوا۔
“اس گیم میں ہم ٹاسک رکھیں گے جنہیں ایک ایک کر کے پورا کرتے ہوئے ہم گیم کے آخری ٹاسک تک پہنچیں گے اور آخری ٹاسک میں۔۔۔”اس نے سنسنی پھیلا کر بات ادھوری چھوڑی۔
“آخری ٹاسک میں کیا؟؟”
“کیا ہو گا آخر میں؟؟؟”
“کیا ہے آخری ٹاسک؟؟؟”
“بولو نا آخری ٹاسک کا؟؟؟”مضطرب سے لوگوں نے پیغامات کے انبار لگائے۔
اس نے جواب لکھنا شروع کیا۔
“آخری ٹاسک میں ہم کسی اونچی جگہ سے کود جائیں گے اور مر جائیں گے۔”جواب مکمل ہوا اور لوگوں کے مزید سوال آئے۔
“لیکن اس میں بھی تو ڈر لگے گا نا۔۔۔”
“اونچائی سے کودنا آسان کام ہے کیا؟؟؟”
“اگر آخری ٹاسک یہ ہے تو شروع کے ٹاسک کیا ہوں گے؟اور ان سب ٹاسک کا کیا مطلب؟؟انسان ویسے ہی سوسائیڈ کر لے۔۔۔”
“اس گیم کا مقصد موت کو آسان بنانا ہے اور خود کو موت کیلیے تیار کرنا ہے کیونکہ ایک دم سے جان لینے میں بہت سے لوگوں کو ڈر لگتا ہے تو اسی لیے پہلے خود کو چھوٹے چھوٹے زخم دیں گے،چھوٹی چھوٹی تکلیفیں دیں گے،اپنے آپ کو اس چیز کیلیے تیار کریں گے پھر جب دماغ اس چیز کو ایکسیپٹ کر لے گا تو جسم خود بخود موت کیلیے تیار ہو جائے گا۔سمپل۔۔۔”اس نے تفصیل بتائی تا کہ سب لوگوں کو اچھے سے سمجھ آ سکے۔
اب خاموشی چھا گئی تھی کیونکہ لوگوں نے اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے سے پہلے سوچنے کی مہلت چاہی تھی۔
“پھر کیا ہوا؟وہ لوگ یقیناً مان گئے تھے،ہے نا؟”اندھیرے میں بیٹھے آدمی نے ماضی کی وادیوں سے کھینچا سو وہ حال میں لوٹا۔
“ہاں۔۔بتایا تو کہ وہ سب جیت گئے اور بس میں ہار گیا۔وہ لوگ اگلے ہی دن مان گئے تھے اور میں نے گیم کے ٹاسک بھی بتا دیے تھے۔”وہ بھی اسے جواب دینے لگا۔ماضی دھندلا گیا۔
“وہی بیس ٹاسک جو لنک کے ذریعے سب تک پہنچتے تھے؟”اندھیرے سے ایک اور سوال آیا۔
“نہیں پہلے یہ ایسا نہیں تھا۔پہلے میں روز کی بنیاد پر ایک ٹاسک دیا کرتا تھا۔بلیڈ سے کاٹنا،اپنے آپ کو بیمار کرنا،خود کو سوئیاں چبھونا،الغرض کسی بھی طرح خود کو اذیت دینا۔اتنی اذیت دینا کہ وہ تکلیف آپ کو سرور دینے لگے۔”اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
“اچھا پھر وہ سائیکاڈیلیک اور ہارر ویڈیوز اور وہ میوزک،وہ چیزیں کیسے ایڈ ہوئیں ٹاسک میں؟”اندھیرے کی سمت سے تشویش تھی گو کہ وہ انجان نہیں تھا ان باتوں سے مگر پھر بھی بنانے والے کے منہ سے تخلیق کی تعریف سننے کا الگ ہی تجربہ تھا۔
“دماغ کی وجہ سے۔۔۔ایسی ویڈیوز اور میوزک انسان کی سائیکی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ انسان کے جوش کو ابھارتے ہیں پھر اسے سکون کی کیفیت میں لے جاتے ہیں۔یہ ایک نشے کی طرح اثر دکھاتے ہیں۔جب انسان کو ان چیزوں کی ایڈکشن ہو جاتی ہے تو پھر وہ دن رات بنا رکے ان چیزوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا ہے۔اس سے رہا نہیں جاتا ان چیزوں سے دور۔۔بس یہی لت لگانی تھی میں نے کیونکہ جب یہ لت لگ جائے تو انسان دنیا سے کٹ کر بس انہی میوزک اور ویڈیوز کا ہو کر رہ جاتا ہے پھر آس پاس کا کوئی ہوش نہیں رہتا،وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتا،کسی کی فکر نہیں کرتا،بس سکرین میں غرق رہتا ہے۔”وہ سیاہ وجود سفاکیت سے جواب دے رہا تھا اور جو وہ کہہ رہا تھا،وہ ہر بات سچ تھی۔
“جبھی اس گیم کے آخر میں بس یہی کرنا ہوتا تھا کہ ویڈیو دیکھو،میوزک سنو اور اپنی باڈی پر کٹس لگاؤ۔آخر کی دس راتیں اسی میں گزارنی ہوتی تھیں۔یوں پھر آخر میں کود جانا ہوتا تھا۔”اس نے مزید انکشاف کیا۔
“لیکن تم نے گیم کیلیے رات کا وقت ہی کیوں چنا؟”اندھیرے میں بیٹھے شخص کو تجسس ہوا۔
“کیونکہ رات میں خاموشی اور سکون ہوتا ہے۔”دمتری نے بڑے جذب سے جواب دیا۔
“خاموشی اور سکون نہیں،اصل میں رات کے تیسرے پہر میں عجب سی ہیبت ہوتی ہے۔اس وقت منفی رجحانات بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ شر کے غالب ہونے کا وقت ہوتا ہے سو جو لوگ خواہ مخواہ میں اس وقت تک جاگتے ہیں ان پر شر غالب آتا ہے اور وہ اس شر کے اثر کو جلدی قبول کر لیتے ہیں تبھی رات کے اندھیرے میں یہ کام زیادہ آسان ثابت ہوتا ہے با نسبت دن کے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے اور خیر کا غلبہ ہوتا ہے۔”اندھیرے میں بیٹھے وجود نے اپنی وضاحت پیش کی جس پر اس شخص نے سر جھٹک دیا گویا کوئی دلچسپی نہ ہو اس کی باتوں میں۔
“اور یہ اورکا کا کیا چکر ہے؟اورکا کو ہی کیوں بنانا تھا اور آخر تک اورکا پوری کرنی تھی اینڈ آل دیٹ۔اس کی کیا وجہ تھی؟”اندھیرے نے بھی بات کا رخ موڑ دیا۔
“اورکا۔۔۔”وہ اپنے بچپن میں چلا گیا تھا۔
“اس جھیل پر جا کر بیٹھنے اور سوگ منانے کا کیا مقصد ہے؟”
“مجھے ایک بات بتاؤ بریس،یہ تم ایک بار ہی میں میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے،ہاں؟”

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on