Uncategorized

Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 17


“کیا جواب دوں؟”
“یہی کہ تم جھیل پر جا کر سوگ کیوں مناتے ہو؟” 
“میری اورکا مر گئی۔”تلخ یاد ذہن میں آئی اور تلخ سی مسکان ہونٹوں پر۔
“میری اورکا مر گئی تھی۔۔۔”اس نے سادہ سا جواب دیا۔
“مطلب؟؟؟”اندھیرے سے سوال آیا۔
“کچھ نہیں۔۔۔”اس نے معاملہ رفع دفع کیا پھر آگے بولا۔
“اورکا مچھلی مجھے پسند تھی ہمیشہ سے کیونکہ وہ خونی وہیل ہوتی ہے تو ایسا کھیل جس میں مرنا ہے ،اس میں اورکا کا ہونا کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔باقی شروع میں اس گیم کا کوئی نام نہیں تھا بس صرف اورکا بنانی تھی اور آخر تک اسے مکمل کرنا تھا۔اس کا نام اورکا بعد میں پڑا ہے۔”اس نے مزید معلومات فراہم کیں۔
وہ پھر سے ماضی کے سفر پر نکلا،وہ اندھیرے میں بیٹھا وجود بھی ہمراہ ہو لیا۔
“اب جبکہ تم سب لوگ گیم کھیلنے کیلیے تیار ہو تو پھر آج سے ہی گیم شروع کرتے ہیں۔کیا خیال ہے؟”دمتری نے گروپ میں پیغام بھیجا اور ان لوگوں کی حتمی رائے مانگی
“ہاں مگر کرنا کیا ہو گا؟”الفاظ کے کچھ رد و بدل کے ساتھ سب نے یہی سوال کیا تھا۔
“آج رات چار بجے اندھیرے کمرے میں بیٹھ کر اپنے ہاتھ پر بلیڈ سے ایک کٹ لگاؤ اور پھر سب اپنی اپنی تصویریں گروپ میں شیئر کرو۔”گیم شروع ہوا۔یہ گیم کی پہلی شروعات تھی۔یہ تھا اس گیم کا پہلا ٹاسک،یہ تھی پہلی رات اور یہ تھے وہ ابتدائی دور کے افراد جنہیں اس گیم میں شامل کیا گیا تھا۔بنا کسی دھمکی کے وہ لوگ راضی خوشی شامل ہوئے تھے اس گیم میں۔
“اوہ پھر کیا ہوا؟”اب اندھیرے میں بیٹھے شخص کا جوش بڑھا۔ماضی میں کھویا وجود بھی آواز سن حال میں لوٹا۔
“پھر گیم شروع ہوا۔سب نے کٹس لگائے اور تصویریں بھیجیں۔ساتھ اپنی تکلیف کا بھی بتایا جو انہیں کٹ لگاتے وقت ہوئی تھی۔”وہ پھر ماضی کا ریچہ کھول گیا۔
“شروع شروع میں درد ہو گا مگر ایک وقت آئے گا جب یہ تکلیف ختم ہو جائے گی۔”دمتری نے ایک جملے میں سب کی تکلیف کو ایک طرف کیا اور پھر سے انہیں کٹ لگانے کا حکم دیا مگر اب دوسری کسی جگہ پر۔ساتھ تصویر بھیجنے کی تاکید بھی کی گئی تھی
یوں یہ گیم چل نکلا۔وہ لوگ اس کا حکم سنتے اور اس پر عمل کر کے تصویر بھیجتے۔سب بظاہر ٹھیک چل رہا تھا۔دمتری کو اس سب سے لطف مل رہا تھا۔ان لوگوں کے زخموں کے نشان اور سوئیوں سے کیے گئے سوراخ اس کے دل کو سکون بخش رہے تھے۔وہ گھنٹوں بیٹھ کر ان تصویروں کو دیکھتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔
دن رات اسی معمول میں گزر رہے تھے۔سب اس کی منشاء کے مطابق چل رہا تھا اور وہ ان سب کو اذیت کی انتہاؤں کو پہنچانے میں کوشاں تھا کہ تبھی ایک رات اس کے دماغ میں خناس جاگا۔وہ اتنے میں کیوں مطمئن ہو؟کچھ اور بھی ہونا چاہیے نا جو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہو۔
اس رات وہ کمپیوٹر کے آگے بیٹھا ایک ہارر مووی دیکھ رہا تھا۔اسے جن،بھوت،پریت،عفریت،ان سب سے ڈر نہیں لگتا تھا،اسے انسانوں سے خوف آتا تھا۔اور انسانوں کا خوف زیادہ زور آور ہوتا ہے۔
ابھی کچھ دیر قبل ہی اس کا بھائی ٹیسٹ میں فیل آنے پر اسے پیٹ کر گیا تھا۔اس نے حسبِ معمول خاموشی سے عتاب سہا تھا،بنا اسے روکے پھر جب وہ خود ہی ہانپنے لگا تھا سو اسے ٹھوکر مار کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر رویا پھر اپنے آنسو پونچھ کر کمپیوٹر کے سامنے آ بیٹھا کہ یہی ایک واحد شے تھی جو اسے ایک الگ ہی دنیا کے سفر پر لے جاتی تھی جہاں وہ لوگوں میں مقبول تھا،جہاں سب اس سے پیار کرتے تھے اور اسے سکندر مانتے تھے،مقدر کا سکندر۔جہاں وہ ان سب کے درمیان گویا راجا اندر تھا۔وہ وہاں جیتا ہوا شخص تھا،وہاں اس کی شکست سے سب ناواقف تھے۔
“کیا ہی اچھی دنیا ہے یہ فیس بک بھی جہاں کوئی کسی کی رئیل آئیڈینٹٹی سے واقف نہیں تبھی تو یہاں میں ونر ہوں،لوزر نہیں۔۔۔”خوشی سی خوشی تھی۔
فی الحال تو وہ فیس بک کی بجائے یو ٹیوب کھولے بیٹھا تھا اور ڈراؤنے مناظر سے لطف اٹھا رہا تھا۔وہ یک ٹک ان مناظر کو دیکھ رہا تھا کہ تبھی اس کے دماغ میں مزید شیطانی خیالات ابھرے۔
“اب سے گیم میں اور بھی چیزیں ایڈ ہوں گی اور میری پیاری اورکا بھی۔۔۔”خباثت چہرے پر چھا گئی۔
“پھر تم نے کیا کیا؟”اندھیرے کی آواز ہمیشہ حال میں لے آتی تھی سو وہ آدمی پھر سے ماضی سے واپس آیا۔
“پھر میں نے گیم میں ویڈیوز اور میوزک ایڈ کر دیا تا کہ یہ سن کر لوگوں کا دماغ اور زیادہ تکلیف میں جائے۔”وہ ہنسا،شیطانی ہنسی۔
اندھیرے میں بیٹھے وجود کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا بلکہ نفسیاتی تھا۔
“اور اورکا؟؟؟”اندھیرے میں بیٹھے آدمی کا ذہن اسی پر اٹکا ہوا تھا۔
“اورکا بنانی تھی۔جو بھی گیم کھیلے گا اسے بلیڈ سے اورکا بنانی ہو گی مگر مرحلہ وار،تھوڑی تھوڑی پھر اخر تک پوری کر کے سوسائیڈ۔۔۔۔”بات کو ادھورا چھوڑ دمتری زور سے ہنسا۔جناتی قہقہہ بند کمرے میں گونجا۔
“ایک رات کا قصہ سناتا ہوں تمہیں پھر تم سب جان جاؤ گے میرے بارے میں۔۔۔میں نے تمہیں گیم کے بارے میں بتا دیا،اب تم میرے بارے میں جان لو پھر بتانا کہ کیا جو میں نے کیا وہ غلط تھا؟؟؟”اس نے سادہ سے انداز میں بنا کسی تاثر کے بات کہی مگر بات میں یقین تھا کہ جیسے آخر میں مقابل بیٹھا شخص قائل ہو جائے گا۔
“ضرور۔۔۔لیکن اس سے پہلے یہ بتاؤ کہ گیم میں کتنے ٹاسک تھے اور کیا کیا؟؟لائن سے بتاؤ۔”اندھیرے میں بیٹھے شخص نے بات کا رخ اس سوال کی جانب موڑا جو دل میں کھلبلا رہا تھا اور ابھی تک پردے میں تھا۔
“گیم کے کوئی باقاعدہ ٹاسک نہیں تھے بس یہی چند ایک چیزیں کرنی تھیں جو تکلیف دے سکیں جیسے بلیڈ سے کٹ مارنا،سوئیاں چبھانا،خود کو بیمار کرنا،الغرض کیسے بھی تکلیف دینا اپنی ذات کو پھر میں نے اس میں ویڈیوز اور میوزک کا اضافہ کیا تاکہ دماغ پر قابض ہو سکے گیم اور پھر اورکا کا اضافہ تا کہ لوگوں میں جوش پیدا ہو اسے کمپلیٹ کرنے کا اور ہر وقت اپنی موت یاد رہے۔باقی ایک دو لوگ جو بہت زیادہ گھبرا رہے تھے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ کسی اونچی جگہ پر جا کر کھڑے ہوں تا کہ ہائیٹ فوبیا نکلے اور آپ آرام سے کود سکیں اونچائی سے۔”خاصی تفصیل بتائی وہ بھی بنا کسی مشقت کے۔
“اور کال اور ویڈیو کال کا کیا چکر تھا؟”اندھیرے میں بیٹھے شخص کا دماغ ہر پہلو پر لگا تھا۔
“وہ ویسے ہی گیم کا حصہ تھا۔میں میسیجز،کال اور ویڈیو کال کے ذریعے ان لوگوں سے کانٹیکٹ میں رہتا ہی تھا اور ان کے مائنڈ کو پریپیئر کرتا تھا سوسائیڈ کیلیے۔”اس نے اس بات کا بھی خلاصہ کیا۔
“مطلب کوئی پراپر ٹاسک نہیں رکھے تھے؟”ایک اور سوال اندھیرے کی سمت سے۔
“نہیں یہ ٹاسک تو آگے بڑھتے بڑھتے لوگوں نے بنائے اور ان کی تعداد بھی بنا لی۔ساتھ ہی ان کو مزید بڑھا لیا۔کسی نے بیس تو کسی نے تیس۔۔۔سب نے اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھایا۔یہ گیم پہلے صرف اس گروپ میں تھا پھر رشیا میں پھیلا اور پھر دنیا میں۔مجھے نہیں لگتا تھا کہ یہ اتنا زیادہ وائرل ہو جائے گا گیم مگر جب آگے بڑھا تو مجھے خوشی ہوئی۔لوگوں کی فیس بک پروفائلز پر کٹس،بلڈ،اورکا اور ایسے زخمی لوگ دیکھ کر سکون ملتا تھا۔”اس نے ہر ایک بات کی تفصیل بتا دی تھی۔غالباً اندھیرے میں بیٹھے شخص کی بھی تشفی ہو گئی تھی تبھی وہ خاموش تھا۔
“وہ لنکس جو لوگوں تک پہنچتے تھے،تم نے بنائے تھے؟”ایک اور سوال یاد آیا تو اندھیرے میں ہلچل ہوئی۔
“ہاں۔۔میں نے ہی بنائے تھے اور پہنچاتا میں بھی تھا اور دوسرے لوگ بھی۔جو بھی چاہتا آگے بھیج دیتا۔اس کے علاوہ ویڈیو کال پر بات بھی میں ہی کرتا تھا کبھی کبھار لیکن ہر ایک سے نہیں کیونکہ یہ گیم بہت پھیل گیا تھا تو مجھے کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ کون کون گیم میں ہے۔میں تو اس دوران بس اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا کیونکہ گروپ بھی بند ہو گیا تھا تو کرنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔”اس شخص کے پاس ہر بات کا تفصیلی جواب تھا اور اس کے جوابات سارے راز کھول رہے تھے۔
“اب میں بتاؤں؟”سیاہ رنگ میں ملبوس شخص نے اب اپنی بات کرنے کی اجازت چاہی۔
“ہاں۔۔۔”اندھیرے سے آوز آئی اور وہ آدمی اندھیرے میں گم وجود کو لیے ماضی میں چل دیا۔
اندھیری رات تھی اور وہ حسبِ معمول جاگ رہا تھا۔کمرہ اسی مخصوص نیلگوں رنگ میں ڈھلا تھا اور وہ وجود زمین پر پڑا اسی رنگ کا ایک حصہ معلوم ہو رہا تھا۔وہ سسک رہا تھا۔اس اندھیرے میں اس کی سسکیاں سناٹے کو توڑ رہی تھیں۔رات پر سکوت چھایا تھا اور اس شخص پر جمود۔
دور کہیں سے کتوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔وہ ان آوازوں پر غور کر رہا تھا۔یہ آوازیں اسے اپنی سی لگتی تھیں کیونکہ وہ اندھیرے کا باسی تھا،روشنی سے اس کا کوئی ناطہ نہیں تھا تبھی یہ رات،سناٹا اور اسے چیرتی کتوں کی آوازیں اسے کھینچتی تھیں۔اندھیرا اسے اپنی سمت بلاتا تھا اور وہ اس میں کشش محسوس کرتا تھا۔اس وقت بھی اندھیرا تھا اور وہ سسکنے کے باوجود مطمئن تھا۔کتوں کے رونے کی آوازیں سماعتوں کیلیے نعمت تھیں۔وہ آنکھیں موندے ان آوازوں سے سرور لینے لگا۔اب سسکیاں کم ہو گئی تھیں۔
“یہ کتے بھی میرے ساتھ سوگ منا رہے ہیں۔”اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔کرب سی مسکان تھی۔
“ڈیڈ۔۔۔”درد بھری آواز میں یونہی آنکھیں بند کیے،اس نے پکارا۔
“ڈیڈ یہ کتے بھی رو رہے ہیں آپ کیلیے۔”وہ عجیب سی باتیں کر رہا تھا۔غالباً وہ کسی صدمے کے زیرِ اثر تھا۔
“ڈیڈ میں نے آپ کو نہیں مارا۔آپ لیو کو بتاتے کیوں نہیں؟کہیں آپ کو بھی تو یہ نہیں لگتا کہ میں نے آپ کو مارا ہے؟”وہ سسکتے ہوئے سوال کر رہا تھا مگر کس سے؟وہاں نیلگوں اندھیرے میں تو کوئی موجود ہی نہ تھا۔
یکا یک اس نے آنکھیں کھولیں اور پھر اپنے بالکل سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ مسکرایا۔وہ شخص شفقت سے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کا دل پسیج گیا۔
“ڈیڈ آپ کو بھی لگتا ہے کہ میں نے آپ کو مارا ہے؟”سوال کیا گیا۔
“نہیں میرے بیٹے مجھے ایسا بالکل نہیں لگتا۔”شفیق سی آواز اس مقابل کے حلق سے برآمد ہوئی۔
“پھر آپ لیو کو کیوں نہیں بتا دیتے یہ بات؟”اس لڑکے نے خفگی سے پوچھا۔
“میں نہیں بتا سکتا میرے بیٹے۔”سامنے بیٹھے شخص نے پیار سے اسے دیکھا۔ان کی آنکھوں میں بھی کرب تھا۔بالکل ویسا ہی جو اس کی اپنی آنکھوں میں تھا۔
اس نے پھر آنکھیں موند لیں اور وہ شفیق وجود نیلگوں اندھیرے میں غائب ہو گیا
بند آنکھوں کے پیچھے الگ ہی مناظر تھے جو اس جگہ سے یکسر مختلف تھے۔کھلی آنکھوں میں اندھیری رات تھی جبکہ بند آنکھوں میں روشن دن سمایا تھا۔
“یہ میری سائیکل ہے مجھے دو۔”لیو نے ایک جھٹکے سے اسے سیٹ سے گرایا۔وہ زمیں بوس ہو گیا مگر ہمت کر کے اٹھا۔
“نہیں۔۔یہ میری سائیکل ہے۔ڈیڈ یہ میرے لیے لائے ہیں،تمہاری سائیکل دوسری ہے۔”اس روسی بچے نے ہمت کر کے پہلی مرتبہ اپنے حق کیلیے آواز اٹھائی۔وہ اب اپنے ڈیڈ کے پاس تھا،وہ اسے بچا سکتے تھے اور یہ اعتماد بھی انہی کا دیا ہوا تھا تبھی تو وہ اپنے بڑے بھائی سے بھڑ گیا تھا۔
“نہیں میں نہیں ہٹوں گا۔”وہ ہٹ دھرمی دکھانے لگا۔
بریس کو یکدم غصہ چڑھا اور اس نے اپنے بڑے بھائی کو طاقت لگا کر نیچے گرا دیا چونکہ وہ مضبوطی سے نہیں بیٹھا تھا تبھی باآسانی گر پڑا۔وہ نیچے گرا تو بریس نے سائیکل کی سیٹ سنبھالی اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگا مگر لیو نے اس کی کوشش ناکام بنائی اور اسے پکڑ کر سائیکل سے اٹھایا۔
“چھوڑو مجھے۔”بریس چلایا تو لیو نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارا اور عادت کے مطابق وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔
یہ ساری کارروائی گھر کے اندر نہیں بلکہ گھر کے باہر موجود سڑک پر جاری تھی۔وہ دونوں باہر آئے تھے اور اپنے والد کے ہمراہ پارک جا رہے تھے،سائیکل چلانے کیلیے۔دونوں کے پاس اپنی اپنی سائیکل تھی مگر لیو نے عادتاً بریس سے اس کی چیز چھیننی چاہی تھی تبھی ان کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا تھا۔ابھی ان کے والد وہاں موجود نہیں تھے سو وہ لوگ منتظر تھے اور اس وقت لڑ رہے تھے۔
“تم مجھے میری سائیکل نہیں دو گے؟”لیو نے دھمکی بھرا سوال کیا۔
“نہیں۔۔۔”بریس نے سائیکل پر ہاتھ جمایا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔”لیو نے شیطانی مسکان اس کی جانب اچھالی پھر اس کے ہاتھ پر جوتا مارا۔وہ کراہا اور سائیکل ہاتھ سے چھوٹی بس پھر لیو نے وہ سائیکل کو ایک دھکا لگایا اور یوں وہ سائیکل سڑک پر چلنے لگی۔یہ دیکھ بریس کی آنکھیں پھٹیں۔وہ اپنی سائیکل کو یوں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا سو اس نے سڑک کا دھیان کیے بنا،قدم آگے کی سمت بڑھائے اور سائیکل کا تعقب کرنے لگا۔
اسی وقت اس کے والد سامنے سے چلتے ہوئے آ رہے تھے۔انہوں نے پارکنگ سے کار لانی تھی جو دوسری جانب تھی مگر کچھ یاد آنے پر وہ دوبارہ گھر کی سمت آ رہے تھے کہ تبھی نظر بریس پر پڑی جو سڑک پر بھاگ رہا تھا۔انہوں نے دونوں سمت نگاہیں دوڑائیں،دائیں سمت سے دور سے ایک تیز رفتار گاڑی آتی دکھائی دی۔
دوسری جانب کھڑا لیو خوشی سے بریس کو آگے بڑھتا دیکھ رہا تھا جبکہ اس کے والد نے ایک دو آواز لگا کر اسے روکنا چاہا مگر وہ روتا ہوا،چوڑی سڑک پر آگے بڑھے جا رہا تھا۔
انہوں نے آواز دینے کا ارادہ ترک کیا اور اس کی سمت میں دوڑے۔گاڑی تیزی سے اس سمت میں بڑھ رہی تھی۔
“بریس۔۔۔”اس کے والد نے ایک آواز لگائی،ساتھ اس کی سمت دوڑے اور اس کے نزدیک پہنچ کر اسے دوسری جانب دھکیلا۔
وہ ایک جھٹکے سے سڑک کنارے گرا،اس کے سر پر چوٹ لگی اور خون بہنے لگا جبکہ سڑک پر اس کا باپ سنبھل نہ سکا اور اس تیز رفتار گاڑی کی زد میں آیا۔
بریس اب اٹھ چکا تھا اور وہ منظر اس نے،اس کے بھائی نے اور گھر سے باہر نکلتی ہوئی اس کی ماں نے ایک ساتھ دیکھا تھا۔
گاڑی انہیں روندتی ہوئی آگے نکل کر ایک درخت سے ٹکرا گئی۔ان کا جسم سرخ رنگ میں رنگنے لگا اور سڑک تیزی سے رنگین ہونے لگی۔
“ڈیڈ۔۔۔”وہ یکدم چیخا مگر وہ مہربان شخص کہیں نظر نہ آیا جو اس حادثے میں اس کی ڈھال بن گیا تھا۔۔
زندگی تو اس حادثے سے پہلے بھی کوئی خوشگوار نہ تھی مگر اس حادثے کے بعد اس کے القابات میں ایک اضافہ ہو گیا تھا۔وہ اب قاتل بھی تھا،اپنے باپ کا قاتل۔۔۔
“ڈیڈی آپ سب کو بتائیں نا کہ سائیکل لیو نے پھینکی تھی۔میں تو اسے لینے گیا تھا۔آئی ایم سوری ڈیڈ۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔”اب سسکیاں بلند تھیں کہ گونج رہی تھیں۔رات کی تاریکی میں کتوں کے رونے میں شدت آئی تھی
وہ یونہی سسکتے ہوئے اٹھا اور ساتھ لگی دراز کھولی پھر اس میں کچھ تلاش کرنے لگا۔آنکھوں میں چمک ابھری،شاید تلاش ختم ہوئی۔اس نے دراز سے مطلوبہ شے نکالی۔وہ ایک بلیڈ تھا،تیز دھار بلیڈ
وہ بلیڈ اس نے اپنے بازو پر رکھا اور ایک زور دار کٹ لگایا۔خون کا فوارہ اچھلا اور چھینٹیں اس کے ہاتھ اور چہرے پر اڑیں،ساتھ ہی اس کٹ سے خون بہنے لگا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on