“آہ۔۔۔۔”وہ کراہا پھر ہنسنے لگا۔زور زور سے ہنسنے لگا مگر اس ہنسی میں بھی کرب تھا۔
ہونٹوں سے پھوٹتی ہنسی،نیلی آنکھوں سے بہتے آنسو اور بازو سے بہتا خون۔۔۔نیلگوں اندھیرے میں قہر تھا۔
کہانی ختم ہوئی اور وہ حال میں لوٹا مگر گنگ تھا۔آنسو البتہ ابھی بھی سیدھ میں بہہ رہے تھے۔اندھیرے میں بیٹھے وجود کو ہمدردی سی محسوس ہوئی اس شخص سے کہ جسے اس کے گھر والوں نے کیا سے کیا بنا دیا تھا۔
“مجھے دکھ ہے تمہارے لیے مگر میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تم نے غلط کیا۔”اندھیرے میں بیٹھا وجود پھر بھی متاثر نہیں تھا ہاں متاثر ہوا تھا۔
اس سیاہ پوش نے کچھ نہ کہا بس چپ چاپ آنسو بہائے گیا۔بنا کوئی تاثر ظاہر کیے۔
“تمہارے ساتھ تمہاری ماں اور تمہارے بھائی نے برا کیا تھا،اگر تمہیں انتقام لینا تھا تو ان سے لیتے مگر تم نے معصوم لوگوں سے انتقام لیا جو تمہارے آگے بےبس تھے اور کمزور تھے۔”اندھیرے میں بیٹھے شخص کو سفاکیت کی حد تک سچ بولنے کی بیماری تھی۔
“ہاں کیونکہ میری ماں اور بھائی مجھ سے زیادہ طاقتور تھے تبھی میں ان کے آگے بےبس تھا اور یہی دنیا کا دستور ہے کہ اپنے سے کمزور کو دباؤ۔اگر میں نے یہ کیا تو کیا غلط کیا؟”دمتری اب مطمئن تھا اور آنسو پونچھ کر سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
“اس سے تمہیں کیا ہی فائدہ ہوا؟کیا مل گیا یہ سب کر کے؟”اندھیرے سے مزید سوال آئے جن میں واضح تمسخر تھا۔
“فائدہ ۔۔۔”وہ ٹہرا اور خاموشی چھا گئی۔اس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور خاموشی کو طویل کیا۔
“ایک دن سب کو سمجھ آجائے گا کہ یہ سب اس طرح سے کیوں ہوا اور پھر تم سب سمجھ جاؤ گے کہ یہ سب اسی طرح ہونا تھا اور اس دن تمہاری عقلیں دنگ رہ جائیں گی۔”ملگجی سی روشنی میں بھاری مگر مضبوط اور کچھ تمسخر اڑاتی آواز گونجی۔آواز میں ٹھنڈک اور ایک یقین تھا کہ جیسے وہ جو کہہ رہا تھا،وہ پتھر کی لکیر ہو۔پراسرار الفاظ تھے اور لہجہ معنی خیز۔۔۔
اس نے جملہ مکمل کیا اور چپ ہو گیا۔اندھیرے سے کوئی جواب نہ آیا،نہ ہی کوئی حرکت ہوئی۔یوں بھی اندھیرے میں کچھ ہو تب بھی کہاں پتہ چلتا ہے۔۔۔اندھیرا تو وجود نگل لینے کی قدرت رکھتا ہے مگر اندھیرے میں ایک وجود تھا اور وہ ابھی ان جملوں پر غور کر رہا تھا۔
“میں نے صرف چند لوگوں کو یہ گیم بتایا تھا باقی سب تک یہ خود پہنچا اور لوگ اسے کھیلنے لگے،سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود تو یہ ان کی غلطی ہے۔اس میں میرا کیا قصور؟؟”اب اس کا انداز،لہجہ اور آواز سب پراسراریت میں ڈھل گئے تھے۔ماحول یکدم ہی تبدیل ہو گیا تھا اور اندھیرے میں بیٹھے انسان کو یہ تبدیلی واضح محسوس ہوئی تھی۔
“چند لوگوں کو بس میں نے اکسایا تھا جبکہ باقی لوگ خود آئے ہیں،کبھی سوچا کیوں؟”وہ سیاہ وجود ٹہرا۔ڈرامائی خاموشی۔
“کیونکہ ہر ایک اپنی زندگی سے تنگ تھا اور اسے ختم کرنے کا آسان طریقہ ڈھونڈ رہا تھا اور میں نے انہیں وہ طریقہ فراہم کر دیا تو میں نے تو نیکی ہی کی نا؟”پھر سے وقفہ کیا۔اندھیرے میں بیٹھا شخص چپ تھا۔
“ابھی بھی اٹھائیس کے قریب لوگ ایسے ہیں جو خودکشی کرنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں اور ایک ایک کر اپنی جان دے رہے ہیں حالانکہ گیم بند ہو چکا ہے۔”اس شخص کی باتیں دل دہلا دینے والی تھیں۔
وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا کہ یہ سب گیم کی وجہ سے تھوڑی ہوا تھا بلکہ یہ تو لوگوں نے خود اس کے جال میں پھنس کر اپنے آپ کو تباہ کیا تھا۔یہی تو تھی انسانی نفسیات کہ جس نے پہلے لیو اور اس کی ماں کو دمتری پر تشدد کرنے پر مجبور کیا،پھر دمتری کو گیم بنانے پر اکسایا اور پھر باقی مایوس یا حد سے زیادہ متجسس لوگوں کو گیم کھیلنے پر آمادہ کیا۔
گیم نے زندگی نہیں لی تھی،زندگی نفسیات نے لی تھی کہ جن پر انسان نے قابو نہ رکھا تھا اور نفسانی خواہشات کا بڑھتا ہوا یہ تسلسل انسان کو مزید ایسے گیم بنانے اور ان چیزوں کو کھیل کر اپنی جان دینے پر اکساتا رہے گا۔
گفتگو کا اختتام ہوا۔اندھیرے کی سمت سے کرسی کھسکنے اور جوتوں کی چاپ کی آواز سنائی دی۔دمتری نے دھیان نہ دیا اور یونہی بیٹھا رہا۔وہ اندھیرے میں غرق وجود تھوڑا آگے کو بڑھا اور روشنی کی سمت دو قدم اٹھائے۔وجود روشن ہوا۔
دراز قد،توانا جسم اور نقاب میں چھپا چہرہ،یہی نمایاں ہوا تھا منظر میں لیکن ایک اور چیز تھی جو منظر میں چمک رہی تھی اور اس کی شناخت کرا رہی تھی۔نقاب سے جھانکتیں اس کی سبز رنگ کی کانچ سی آنکھیں
“الوداع بریس۔۔۔”وہ جو ابھی تک یونہی بیٹھا تھا،اس کے الوداع کہنے پر چونکا اور گہری نیلی،تعجب میں ڈوبی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا مگر وہ جب تک قدموں کی چاپ پیدا کرتا وہاں سے باہر نکل گیا تھا اور وہ پیچھے بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔
“اسے میرا نام کیسے پتہ چلا؟میں نے تو پوری کہانی میں اپنا نام دمتری بتایا تھا پھر۔۔۔”سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور دروازے کے بند ہونے کی آواز پر سب گڈ مڈ ہو گیا۔
***
جاری ہے
Ek Sakoot E Bekaraan by Syeda Episode 17
