وہ دونوں کھڑکی سے کچھ دور فاصلے پر رکیں۔گل رخ نے ایک نظر جھانکا اور اپنی بےقابو ہوتی ہنسی دبائی۔
“جیو غفرانا۔۔۔”دل ہی دل میں اس نے اپنے سے بڑے بھائی کو داد دی پھر اپنی بھابھی کو اشارہ دیا۔
“بابھی وہ واں بیٹا ہے۔آپ یاں سے کڑے ہو کر دیک لو۔بس ہلکا سا جانکنا۔”وہ کچھ پیچھے کھسکی اور سبین کیلیے جگہ بنائی۔
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی جگہ پر آکھڑی ہوئی۔پہلے ایک نظر کمرے کے مرکزی دروازے پر ڈالی۔صد شکر تھا کہ وہاں کوئی نہیں تھا سو نگاہیں جھکا لیں۔اب حالت یہ تھی کہ وہ پوری سرخی میں ڈھلی تھی،دل دھڑک رہا تھا،سانس تھم گئی تھی اور جھکی پلکیں حیا کے بار سے لرز رہی تھیں۔
“دیک بی لو۔”گل رخ نے شرارت سے سرگوشی کی تو سبین نے مسکراتے ہوئے اپنے پلکیں اٹھائیں اور سامنے نگاہ ٹکائی جہاں اس کی نند کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔تمام کرسیاں ایک سی ہی تھیں سو الگ سے کوئی پہچان نہیں تھی دلہا کی کہ وہ فلانا سجی دھجی کرسی پر براجمان ہوگا۔کوئی بھی کہیں بھی بیٹھا ہوا تھا تبھی سبین نے اپنی نند کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا۔
سبین نے دیکھا اور اس کی نگاہیں ساکت رہ گئیں۔دھڑام سے گرا تھا آرزوؤں کا محل حالانکہ اتنی خواہشات تو پالی بھی نہیں تھیں مگر اتنا بھی برا نہیں سوچا تھا۔اسے کبھی شہزادے کی خواہش نہیں رہی تھی جو اسے وہ قبول صورت سانولا،دھان پان سا شخص برا لگتا لیکن اس وقت وہ برا لگ رہا تھا اور اس کی وجہ کچھ اور تھی۔نگاہوں میں اس شخص کا عکس تھا اور سماعتوں میں کسی کے جملے تھے جو آنکھوں میں دِکھتی اس شخصیت کا خلاصہ کرنے کیلیے بیان کیے گئے تھے۔
“آپی آپ کی تو نکل پڑی یار۔سِنان بھائی اتنے خوبصورت ہیں بالکل شہزادے لگتے ہیں۔گورے چٹے اور ان کی باڈی بنی ہوئی ہے اور بال اتنے سلکی ہیں۔اور آنکھیں،آنکھیں تو سب سے پیاری ہیں،گرین آئیز۔۔اتنے ڈیشنگ ہیں وہ کہ خوش ہو گیا میں تو۔اب سب دوستوں کو چڑاؤں گا سِنان بھائی کو دکھا کر۔آپ تو ان کے سامنے ذرا بھی اچھی نہیں لگیں گی۔”ساری باتیں مسکرا کر سنتے ہوئے،آخری جملے پر سبین نے اپنے بھائی احمر کو تھپڑ جڑا تھا اور ابھی بھی سبین کا دل ہو رہا تھا کہ اس کا بھائی سامنے آئے اور وہ رکھ کے دے ایک چماٹ اس کے منہ پر۔
“مجھے تو نہ شہزادوں کی سی آن بان دِکھ رہی ہے،نہ ہی یہ گورے چٹے ہیں،نہ ہی ان کی باڈی ہے مطلب باڈی ہے تو مگر وہ والی باڈی نہیں ہے اور آنکھیں۔اگر میں کلر بلائنڈ نہیں ہوں تو یقیناً یہ آنکھیں گرین کلر کی نہیں ہیں۔ہاں بال سلکی سے لگ رہے ہیں اور کیا کہا تھا میرے اندھے بھائی نے کہ میں ان کے سامنے بری لگوں گی۔حد ہے پھینکنے کی بھی،بھئی میں ان کے ساتھ کھڑی،ان سے زیادہ اچھی لگوں گی۔”وہ صدمے میں تھی اور سامنے بیٹھے شخص کا احمر کے بتائے شخص سے موازنہ کر رہی تھی۔
“کیا ہوا بابھی؟کیا اتا پسند آگیا امارا لالا کہ نظر نئیں ہٹ را تمارا۔”گل رخ کی آواز اسے سوچوں سے نکال لائی۔
“دل تو کیا کہ بول دے کہ ہاں بہن،نہیں ہٹ رہا ہمارا نظر تمہارے لالا سے کیونکہ یہ ہمارے لالا کی بیان کردہ خصوصیات سے میل نہیں کھاتا جو اس نے تمہارے لالا کے بارے میں بیان کیا تھا۔ہمارا بھیجا سڑ گیا ہے۔”دل تو پتہ نہیں کیا کیا چاہتا ہے مگر وہ بولی کچھ نہیں اور بس نگاہیں جھکائے وہاں سے ہٹ گئی۔
وہ آگے صوفے کی جانب بڑھ رہی تھی اور پیچھے کھڑی گل رخ اپنی ہنسی دبا رہی تھی۔
“شاباشے غفران لالا۔اب سِنان لالا کو لا کر بٹا دو۔بابھی کا شکل اتر گیا ہے۔مزہ آگیا دیک کر۔”پیغام لکھ کر اس نے بھیج دیا۔
“اصل مزہ تو جب آئے گا،جب بابھی لالا کو دیکے گا۔”سامنے سے موصول ہوا پیغام گل رخ کو مزید مسکرانے پر مجبور کر گیا۔وہ ہنسی ضبط کر کے اس کے پیچھے ہو لی۔
دوسری طرف غفران نے پیغام بھیج کر باہر کا رخ کیا۔
“آجاؤ لالا۔کام ہو گیا اے۔ام نے وہ کام سرمد لالا کو بول دیا،وہ کروا دے گا۔”غفران کے بات سن کر سِنان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
“او خانہ خراب اگر تمہیں کام اسی سے کرانا تھا تو مجھے خوار کرنے کیلیے یہاں کھڑا کیا تھا۔کب سے میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور تم آکر نہیں دے رہا تھا اور اب آیا ہے تو کہہ رہا ہے کہ کام سرمد لالا کو بتا دیا،وہ کر دے گا۔”سِنان اردو لہجے میں بولتے اچانک سے پشتو لہجے میں شروع ہو گیا تھا اور اس کا اسے بالکل احساس نہیں ہوا تھا۔وہ عادتاً ایسا اکثر کیا کرتا تھا۔
“ارے چوڑو نہ لالا اب چلو اندر۔”غفران نے بات سمیٹی۔
اس کی گدی پر ایک چپت لگا کر وہ آگے بڑھ گیا اور پیچھے غفران اپنے گدی سہلاتا،ڈھٹائی سے مسکراتا وہیں کھڑا رہا۔