***
شفاف شیشہ کہرے کے باعث دھندلا پڑ گیا تھا۔کھڑکی جو باہر کا مکمل منظر دکھاتی تھی،آج برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ہوائیں کھڑکی سے ٹکرا کر،سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں اور ہواؤں کے ساتھ سفر کرتے برف کے گالے رنگین تصویر کو سفیدی سے ڈھک رہے تھے۔ہوائیں خزاں رسیدہ پتوں کو بھی کبھی کبھار اپنے ہمراہ لیے چلی آرہی تھیں۔اس قدر برف میں گھر میں قید رہنا ہی واحد حل تھا۔
بریس کھڑکی کے ساتھ لگے،بنا ہتھے کے صوفے پر بیٹھا تھا۔وہ برف کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھا بلکہ اس کی پوری توجہ اس وقت سکیچ بک پر تھی جس پر وہ رنگوں سے اشکال بنا رہا تھا۔وہ سیدھا بیٹھا ہوا تھا اور سکیچ بک گود میں رکھی ہوئی تھی۔وہ اس کام میں محو تھا مگر ساتھ ہی چور نظریں آس پاس کے مناظر پر بھی ڈال رہا تھا۔ذرا سی ہلچل محسوس ہونے پر وہ سکیچ بک بند کر کے اپنے سینے سے لگاتا اور دبکا بیٹھ جاتا اور جیسے ہی سکوت چھاتا،فوراً سکیچ بک کھولتا اور اپنے کام میں لگ جاتا۔غالباً اسے کوئی خوف تھا یا وہ سب کی نظروں سے اس سکیچ کو چھپا کر رکھنا چاہتا تھا جو بھی تھا مگر اس کی ڈرائنگ کمال تھی۔وہ کافی اچھے خاکے بنا رہا تھا۔
ایک تصویر مکمل ہوئی جو کہ ایک عورت کی تھی پھر اس نے دوسری تصویر بنانی شروع کی،ساتھ ہی اطراف پر نگاہیں بھی دوڑائیں۔وہ بہت مکمل تصویر نہیں بنا رہا تھا بلکہ خاکے سے بنا رہا تھا جسے دیکھ تھوڑا بہت اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ تصویر مرد کی ہے یا عورت کی۔
اب جو دوسری تصویر مکمل ہوئی وہ مرد کی تھی پھر اس نے ان دونوں کے درمیان ایک اور تصویر بنائی جو ایک بچے کی تھی۔ان تصویروں کو مکمل کر کے اس نے اگلی تصویر ان تین تصویروں سے کچھ فاصلے پر بنائی،وہ تصویر بھی ایک بچے کی تھی۔
تصاویر مکمل ہوئیں تو اس نے پھر سے اردگرد نظر ڈالی اور سکون کی سانس خارج کی۔
اب اس نے سیاہ رنگ اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔
سب سے پہلے ایک کونے میں آج کی تاریخ درج کی۔
“پانچ دسمبر دو ہزار پانچ۔۔۔”
اب اس نے آگے کا کام شروع کیا اور عورت کی تصویر کے اوپر مام،مرد کی تصویر کے اوپر ڈیڈ اور بیچ میں موجود بچے کی تصویر کے اوپر بریس لکھ دیا پھر کچھ دور بنے دوسرے بچے کی تصویر کے اوپر لیو لکھ دیا جو اس کے بڑے بھائی کا نام تھا۔
اب اس نے سرخ رنگ کی پنسل اٹھائی اور اس سے قبل کہ وہ کاغذ پر مزید کچھ بناتا،اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔بریس نے فوراً سے وہ سکیچ بک اس صوفے کے نیچے پھینک دی اور رنگوں کو ایک تھیلے میں ڈال کر اسے بھی صوفے کے نیچے پھینک کر چادر نیچے کر دی۔اب وہ چیزیں سب کی نگاہوں سے اوجھل تھیں اور بریس راہداری کو تک رہا تھا جہاں سے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی مگر ابھی تک شخصیت سامنے نہیں آئی تھی۔
کچھ لمحات گزرے اور اس کا بڑا بھائی لیو اپنی باسکٹ بال لیے اندر داخل ہوا۔
“کیا کر رہے ہو تم؟”وہ اس کے نزدیک آکر روسی زبان میں گویا ہوا۔آنکھوں میں تجسس تھا۔
“کچھ نہیں بیٹھا ہوں۔”بریس نے نپا تلا جواب دیا۔ہمیشہ کی طرح۔وہ کافی کم گو بچہ تھا۔
“کچھ نہیں کر رہے تو میرے ساتھ کھیلو۔”یہ کہتے ساتھ ہی اس نے بال بریس کی جانب اچھال دی جو اس کے سینے سے لگی اور وہ جھک گیا۔
اسے زیادہ زور سے نہیں لگی تھی سو وہ اٹھ گیا مگر اس بےعزتی پر آنکھیں نم تھیں۔دوسری جانب اس کا بڑا بھائی اسے دیکھ زور زور سے ہنس رہا تھا۔یونہی ہنستے ہوئے وہ اس کے نزدیک آیا اور اس کے سر کو نیچے کر کے پیٹھ پر مکا مارا پھر چلایا۔
“یس میں چیمئین ہوں اور تو لوزر ہے۔”مکا بھی زیادہ زور کا نہیں لگا تھا مگر ہتک کا احساس جاں گزین تھا۔بریس نے اب کی بار سر جھکائے رکھا جب تک کہ اس کا بھائی ہنستے ہوئے وہاں سے چلا نہ گیا۔
اس کے جانے کے بعد اس نے سر اٹھایا۔نیلی کانچ سی آنکھیں،گہرے نیلے سمندر کی مانند بہہ رہی تھیں۔معصوم چہرہ ذلت کے احساس سے سرخ تھا۔
ذلت کسی بھی عمر میں کی جائے شدت سے محسوس ہوتی ہے۔انسان کی عزتِ نفس کو بچپن میں بھی مجروح نہیں کرنا چاہیے ورنہ انسان احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور احساس کمتری ہی درحقیقت احساس برتری ہوتی ہے۔یہ دو مختلف حالتیں نہیں بلکہ ایک ہی حالت کے دو نام ہیں۔
***
جاری ہے