رات کا پہلا پہر بیت چکا تھا۔احمد ولا کے تمام نفوس اپنے کمروں میں بند تھے اور ایک کمرے کے حالات دوسرے سے مختلف تھے۔احمد صاحب کے کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔سبز روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی اور کمرے کے مالکان خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔دیوار گیر گھڑی کی بڑی سوئی بارہ کے ہندسے کی جانب سفر کر رہی تھی۔خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔رات اس جگہ پر پوری طرح قابض تھی۔
اگلا کمرہ سبین کا تھا جہاں نکاح کے بعد سے اب تک بس خوشی ہی خوشی ٹپک رہی تھی لیکن ہاں اب اس خوشی میں کچھ تشویش کی آمیزش ہونے لگی تھی بلکہ اداسی کی۔نکاح کو ڈیڑھ ہفتہ گزر چکا تھا اور ابھی تک اس کے میاں جی نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔اس دن کی سلام دعا کے بعد سے وہ یوں غائب تھے جیسے کوئی وجود نہ رکھتے ہوں۔
“مانا کہ ان کی جاب مشکل ہے مگر ایسی بھی کیا مصروفیت کہ خیال بھی نہیں میرا۔میں نے تو سنا تھا کہ شوہر نئی نئی بیوی کو بہت اہمیت دیتے ہیں،ان کے نخرے اٹھاتے ہیں،آگے پیچھے گھومتے ہیں۔ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چونچلے ختم ہو جاتے ہیں مگر یہاں تو چونچلے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم۔۔ہاہ۔۔”تشویش کی وجہ سوچتے ہوئے اس نے گہری سانس لی۔دل مزید اداس بلکہ چڑچڑا سا ہونے لگا۔
“چونچلے تو چھوڑو شکل بھی نکاح کی اگلی شام کی دیکھی ہوئی ہے میں نے۔وہ بھی کون سا خود مجھے دیدار دینے آئے تھے۔وہ تو بھلا ہو نیوز چینل والوں کا،وہیں دیکھنے کو مل گئے ورنہ تو اس عرصے میں مجھے شکل ہی بھول جانی تھی۔”اس کی سوچیں مسلسل الجھ رہی تھیں اور اب چڑچڑا پن غصے میں بدلنے لگا تھا۔اس کمرے کی فضا پچھلے کمرے کی نسبت تپش زدہ تھی،بھئی کمرے کی مالکن کا دل جل رہا تھا اپنے نئے نکور شوہر کی بےرخی پر تو کمرے کے ماحول نے بھی جلنا ہی تھا نا۔
پھر تھا تیسرا کمرہ جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔موبائل سکرین سے پھوٹتی مدھم روشنی ایک چہرے پر پڑ کر اسے واضح کر رہی تھی۔پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا سو حال احوال یا نفوس کی موجودگی کا اندازہ نہیں ہو رہا تھا بس ایک شخص تھا جو موبائل سے نکلتی روشنی کی سبب عیاں ہو رہا تھا۔وہ احمر تھا جو موبائل کی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔شکل پر کچھ ںےچینی دکھائی دے رہی تھی۔اس کی وجہ یقیناً موبائل کی سکرین میں ہی قید تھی۔
سکرین پر نگاہیں ٹکائے،اس نے زیر لب وہاں لکھے الفاظ دہرائے۔ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔تھوک نگلتے ہوئے وہ پھر سے الفاظ پر غور کرنے لگا کہ شاید اس کی نظروں کو دھوکہ ہوا ہو مگر نہیں وہاں جو لکھا تھا وہ حقیقت تھا۔اس کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں۔پسینہ اب پورے وجود کو بھگو رہا تھا اور سانس گھٹنے لگا تھا۔یکدم اسے لگا کہ اس کا دل بند ہو جائے گا۔وہ الفاظ اس کی جان نکال رہے تھے۔
“ٹاسک:دوسرے اورکاز سے کال پر بات کریں۔”یہی وہ انگریزی میں لکھے الفاظ تھے جو اس نوجوان لڑکے کی گھبراہٹ کا سبب بنے تھے۔
کسی سے کال پر بات کرنے میں کیا گھبراہٹ؟لیکن یہ کال یقیناً عام کال نہیں تھی تبھی تو وہ یوں خائف تھا۔اس کی نگاہوں میں کل رات کا منظر گھومنے لگا۔اب اس کی نگاہیں سکرین پر تھیں مگر اس کا دماغ ماضی میں چلا گیا تھا اور وہیں کا ایک منظر نمایاں ہو رہا تھا۔
“ایک تو سمجھ نہیں آتا یہ گیم والے ہر ٹاسک رات کو ہی پورا کرنے کا کیوں کہتے ہیں۔”وہ اچھل کر بیڈ پر لیٹ گیا اور برابر میں رکھا اپنا موبائل اٹھایا۔موبائل سکرین پر پیغام جگمگایا جسے اس نے کھولا تو وہ واضح ہو گیا۔
“ٹاسک:آپ کو جو ویڈیوز بھیجی گئی ہیں،انہیں رات کے چار بج کر پندرہ منٹ پر،اندھیرے کمرے میں،اکیلے دیکھیں۔”پیغام انگریزی میں تھا اور اس کے ساتھ ہی نیچے ویڈیوز کے لنکس موجود تھے جو اس نے دیکھنی تھیں۔
آنکھیں تجسس سے سکڑ گئیں۔اس نے ایک لنک کو چھوا تو سامنے سکرین رنگین ہو گئی۔ٹیڑھے میڑھے دائرے سکرین سے ابھرتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔کبھی وہ ابھرتے ہوئے بڑے ہو جاتے تو کبھی چھوٹے،کبھی دائیں جانب غائب ہو جاتے تو کبھی بائیں جانب۔عجیب سا منظر چل رہا تھا۔سکرین پر بکھرے رنگ دماغ کو چبھ رہے تھے۔لال،پیلا،گہرا گلابی،گہرا نیلا،طوطے جیسا ہرا،یہ عجیب و غریب رنگ تھے جو حرکت کر رہے تھے۔
پورا کمرہ اندھیرے میں تھا کیونکہ یہی حکم دیا گیا تھا بس سکرین پر چلتے رنگ روشن تھے اور سیاہی میں وہ رنگ اور بھی خائف کر رہے تھے۔
احمر بغور ان رنگوں کی حرکت کو دیکھ رہا تھا۔اسے وہ رنگ چبھ رہے تھے۔دماغ سن ہو رہا تھا۔آنکھیں سکرین پر ٹکٹکی باندھے،دکھنے لگی تھیں۔یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ عجیب و غریب اشکال اب اس کی آنکھوں میں حرکت کر رہی تھیں۔
کچھ دیر وہ بےہنگم حرکت کرتی اشکال دماغ کو تنگ کرتی رہیں پھر رفتہ رفتہ دماغ پرسکون ہونے لگا،عادی ہونے لگا اور دماغ جب کسی شے کا عادی ہو جائے تو وہ معمول کی سی لگتی ہے۔کوئی بھی چیز یا شخص کو صرف دماغ تک رسائی دینی ہوتی ہے انسان نے اور پھر خود بخود پورا کا پورا انسان میکانکی انداز میں اس شخص یا چیز کا غلام بن جاتا ہے،بے دام غلام۔
یہاں بھی یہی ہو رہا تھا۔وہ چلتے پھرتے،عجیب رنگوں والے دائرے پہلے آنکھوں کے سامنے آئے تھے اور دماغ چوکنا ہو گیا تھا۔اس کو یہ چیز معمول سے ہٹ کر لگی تو دکھن کا احساس پیدا کر،اس نے آنکھوں کو ہٹانا چاہا مگر آنکھیں ہٹ دھرمی پر اتر آئیں سو دماغ نے بھی مزاحمت ختم کی اور دھیرے دھیرے ان دائروں کے قابو میں چلا گیا۔اب مسلسل چلتے وہ دائرے احمر کو سکون دے رہے تھے اور اس سکون میں اسے پتہ بھی نہ چلا کہ چار سے پانچ تک کا سفر گھڑی نے کب طے کیا۔
پورا منظر پھر سے دیکھ کر وہ سر جھٹک کر ماضی سے باہر آیا۔اب حال تھا۔وقت ابھی دو بجے کا تھا مگر ٹاسک پورا چار بج کر پندرہ منٹ پر ہی کرنا تھا۔اس سے پہلے نہیں۔احمر نے تھوک نگلا اور دماغ دوڑانے لگا۔
“دو گھنٹے ہیں بس۔۔۔کیا کروں؟”اس کی رنگت،اس مدھم روشنی میں بھی نمایاں تھی۔سفید پڑتی فق رنگت۔
“کیا گروپ میں میسج کروں۔”دماغ ایک نقطے پر اٹکا۔
“نہیں۔”فوراً ہی اس نے سوچ رد کر دی۔
“پھر کیا کروں!”وہ بہت دہشت میں تھا۔
“پچھلا ٹاسک ہی اتنا عجیب تھا،اب پتہ نہیں کس سے کال پر بات کرنی پڑتی اور وہ نہ جانے کیا باتیں کرتا۔”اس کا دماغ پھٹ رہا تھا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
ہاتھ میں موجود موبائل کی سکرین مقررہ وقت پورا ہونے پر بند ہو گئی۔کمرے میں سیاہی پھیل گئی اور احمر کی آنکھیں بصارت سے محروم ہو گئیں۔کمرے کی سیاہی نے اس کی بصارت اور اس کے وجود کو نگل لیا تھا اور اب سماعت معمول سے بڑھ کر کام کرنے لگی جیسا کہ انسان کے دماغ کی خاصیت ہے کہ جب آپ کی کوئی ایک حس کم ہو جائے تو دوسری حسیں زیادہ فعال ہو جاتی ہیں تبھی انسان کو اندھیرے میں آوازیں واضح سنائی دیتی ہیں کیونکہ اندھیرا دیکھنے کی حس کو نگل لیتا ہے سو سننے کی حس زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے اور یہی چیز بعض کمزور دل انسان کو خوف دلاتی ہے تبھی وہ فلمیں جو ڈراؤنے مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں زیادہ تر اندھیرے میں فلمائی جاتی ہیں،یہ انسان کے دماغ پر پکڑ مضبوط کرنے کی ایک سازش ہوتی ہے تاکہ زیادہ ڈر پیدا ہو سکے کیونکہ روشنی امید دیتی ہے اور امیدیں انسان کو ڈراتی نہیں ہیں اور اندھیرا بصارت کو چھین لیتا ہے پھر جب آنکھیں بے نور ہو جائیں تو سماعتوں میں آوازیں چبھنے لگتی ہیں۔
بڑا ہی خوفزدہ کرتا ہے ان آوازوں کو سننا جنہیں آنکھیں دیکھنے سے محروم ہوں۔
***