سبین بیڈ پر لیٹی نیم غنودگی میں تھی کہ دروازے کے زور سے بجنے کی آواز نے اسے چونکایا۔وہ فوراً سے اٹھ بیٹھی۔دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔اس نے گہری سانس خارج کی اور بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھا۔سرہانے پڑی شال اٹھائی اور اپنے گرد لپیٹ کر دروازے کی سمت بڑھنے لگی جو مسلسل بج رہا تھا۔دستک میں زیادہ زور نہیں تھا مگر تواتر سے ہو رہی تھی۔
“کون ہے؟”اس نے دروازے کے پاس رک کر پوچھا۔حالانکہ کوئی گھر کا فرد یا ملازم ہی ہونا تھا مگر پھر بھی اس وقت اس طرح مسلسل ہوتی دستک فطرتاً اسے خوف زدہ کر رہی تھی۔
“آپی میں احمر۔”یہ سنتے ہی اس نے فوراً سے دروازہ کھولا۔بھلا اس وقت احمر کو کیا کام پڑ گیا تھا؟
“تم اتنی۔۔۔”قبل اس کے کہ وہ اس کے اتنی رات تک جاگنے پر برہم ہوتی،دروازے کھلتے ہی اس کا پسینے میں شرابور خوف سے کانپتا وجود دیکھ خود بھی گھبرا گئی۔
“احمر کیا ہوا ہے؟تم کپکپا کیوں رہے ہو؟”وہ فکرمندی سے اس کے ماتھے کو چھو رہی تھی۔آواز میں تفکر تھا۔
وہ کچھ نہیں بولا بس چپ چاپ اسے دیکھے گیا۔
“تم اندر آؤ۔”اس نے احمر کا بازو تھام کر اسے اندر کیا اور خود کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
“آؤ یہاں بیٹھ جاؤ اور اب بتاؤ کہ کیا ہوا ہے؟”اسے ہاتھ سے پکڑ کر سبین نے بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے نزدیک بیٹھ گئی۔
“آپی۔۔۔آپی۔۔۔”وہ اتنا کہہ کر رونے لگا۔اس کی حرکتیں سبین کو وحشت میں مبتلا کر رہی تھیں۔آخر ایسا بھی کیا ہوا تھا کہ وہ اتنی ابتر حالت میں تھا اور اب رونے لگا تھا۔
“چپ ہو جاؤ میری جان۔کیا ہوا ہے بتاؤ تو سہی اپنی آپی کو۔”وہ اس کے آنسو پونچھ کر مزید قریب ہوئی اور اسے پیار سے پچکارنے لگی۔
“آپی مجھے بچا لو۔مجھے،وسیم کو،فہد،ریحان،ثمرہ،زرش،ہم سب کو بچا لو۔پلیز۔۔۔۔”وہ اس کے ہاتھ پکڑ کرجو التجا کر رہا تھا،وہ سبین کی سمجھ سے پرے تھی۔
“کیا مطلب ہے بچا لو؟کیا کیا ہے تم سب نے؟کوئی شرارت کی ہے پھر سے یا تم میں سے کسی کا سکول کالج میں جھگڑا ہوا ہے یا پھر سے کسی فیس بک گروپ میں کوئی بھرم بازی دکھائی ہے تم سب نے۔بتاؤ اب کی بار کس سے بچانا ہے؟”گو کہ احمر کی حالت خاصی خستہ تھی پھر بھی سبین نے ماضی میں رونما ہوئے واقعات کا تذکرہ کیا کہ غالباً اب کی بار اس سے کچھ بڑی بات ہوگی لیکن پھر بھی کتنی بڑی بات ہوگی!
“نہیں آپی ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ہم سب۔۔۔ہم سب۔۔۔”احمر نے اس کی بات کی تردید کی اور اٹکتے ہوئے بولا۔
“ہم سب کیا؟”سبین نے تھوک نگلا۔کچھ تشویش تھی چہرے پر لیکن ہنوز یہ یقین تھا کہ بڑی میں بڑی بھی ہوئی تو کتنی ہی بڑی بات ہو جائے گی۔وہ سب بچے ہی تو ہیں ابھی،ایسا بھی کیا کر لیں گے۔
“ہم سب مرنے والے ہیں۔”اس نے ہچکچاتے ہوئے جملہ مکمل کیا اور سبین کی چیخ نکل گئی۔اس نے اتنی خوفناک بات سوچوں میں بھی نہیں سوچی تھی۔
“یہ کیا بکواس ہے،ہاں؟دیکھو اگر یہ تم لوگوں کا کوئی مذاق ہے تو میں بہت ماروں گی تم سب کو۔”اس نے اپنے بھائی کو انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔
“یہ کوئی مذاق نہیں ہے آپی میں سچ بول رہا ہوں۔”اس کی ہچکیاں اور لرزتی آواز اس کے کہے کی تصدیق کر رہی تھی مگر وہ اداکاری بھی تو اچھی کرتا تھا۔سبین کو ابھی تک ماضی میں کیے گئے اس کے اوٹ پٹانگ مذاق یاد تھے۔وہ کیسے اتنی آسانی سے مان جاتی۔
“اچھا اور کون مارے گا تم سب کو؟”سبین نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور طنزیہ سوال کیا۔
“آپی یہ مذاق نہیں ہے یار آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں!جب میں مر جاؤں گا تب آپ کو پتہ لگے گا۔”سبین کا سوال سن احمر ہذیانی انداز میں بولتے ہوئے اپنے بال نوچنے لگا اور بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
سبین یکدم سنجیدہ ہو گئی تھی۔بات یقیناً اتنی معمولی نہیں تھی جتنی وہ سمجھ رہی تھی۔وہ فوراً سے اٹھی اور اپنے بھائی کو پکڑ کر اپنی جانب کیا۔
“احمر جان ایسی باتیں نہیں کرتے۔اللہ نہ کرے کہ تمہیں کچھ ہو۔”وہ اس کے آنسو پونچھ کر تسلی دینے لگی۔
“اچھا ادھر آؤ،ادھر بیٹھو۔”وہ اس کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک لائی اور اسے بٹھا کر خود فریج سے پانی نکالنے چلی گئی۔
پیچھے احمر اب ہولے ہولے سسک رہا تھا۔وہ پانی سے بھرا گلاس ہاتھ میں لیے اس کے نزدیک چلی آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیار سے اسے مخاطب کیا۔
“احمر یہ لو پہلے پانی پیو اور ریلیکس ہو جاؤ۔”اس نے پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگایا جسے وہ ایک گھونٹ میں ختم کر گیا۔اس کا ہر انداز و اطوار اس کے دل کی کیفیت بیان کر رہا تھا۔
“اب بتاؤ کیا ہوا ہے اور تمہیں کس نے بولا کہ تم سب لوگ مر جاؤ گے؟”پانی پی کر وہ کچھ سنبھلا تو سبین نے سوال کیا۔
“آپی ہم لوگ سب ایک گیم کھیل رہے ہیں اور اس کے آخری راؤنڈ میں ہم سب کو سوسائیڈ کرنی ہے۔”اس نے پوری بات ایک جملے میں بیان کی۔آنکھیں سہمی ہوئی تھیں۔
“کون سا گیم؟”سبین نے الجھ کر سوال کیا۔بھلا گیم کھیلنے سے بھی کوئی مرتا ہے کیا!
“دی اورکا۔۔۔”گیم کا نام سن کر سبین کی بھنویں سکڑیں۔
اس نے پہلی بار اس گیم کا نام سنا تھا۔
“کیسا گیم ہے یہ اور کیسے کھیلتے ہیں اسے؟”وہ اب تفصیل پوچھ رہی تھی تاکہ بات کی تہہ تک پہنچ سکے۔
“اس میں ایک لنک کے ذریعے اینٹر کرنا ہوتا ہے پھر آپ کو ٹاسک دیے جاتے ہیں۔ایک ایک کر کے آپ کو ان ٹاسک کو پورا کرنا ہوتا ہے اور گیم کے کری ایٹر کو ویڈیو یا فوٹو بھیجنی ہوتی ہے۔ایسے ہی ٹاسک پورے کرتے کرتے آپ آخر تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہ کہتے ہیں کہ اب آپ سوسائیڈ کر لیں۔”اس نے تھوک نگلتے ہوئے گیم کا پورا خلاصہ بیان کیا۔
“کیا؟؟؟اور تم ایسا فضول گیم کھیل کیوں رہے ہو؟”پوری بات سن کر سبین کا پارہ چڑھ گیا تھا۔آخر اس کے بھائی کو ایسے فضول کھیلوں میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیا پڑی تھی۔
“مجھے وسیم نے اس گیم کا بتایا تھا اور اس نے کہا تو میں کھیلنے لگا۔”
“وہ کہے تو چھت سے کود جانا،ٹھیک ہے۔”سبین نے اس کو زور سے ڈپٹا۔
“آپی۔۔۔پاپا ماما کو مت بتانا کچھ بھی پلیز۔”وہ اب بات کو مخفی رکھنے کی التجا کر رہا تھا۔
“کیوں نہیں بتانا؟میں تو بتاؤں گی۔بہت شوق ہے نا فضول کی چیزوں میں پڑنے گا تو بھگتو اب۔”سبین سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
“ابھی کے ابھی اس گیم کو کوئٹ کرو۔”اس نے گھبراہٹ میں اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر حل نکالا۔
“یہ نہیں ہو سکتا آپی۔”
“کیوں؟”وہ اس کے انکار پر چیخ پڑی۔
“گیم۔۔۔گیم سے کوئٹ۔۔نہیں کر سکتے۔۔۔ایک بار گیم میں اینٹر ہو گئے تو اینڈ تک۔۔۔۔لازمی۔۔کھیلنا پڑتا ہے۔۔”وہ سہم کر اٹکتے ہوئے جواب دینے لگا۔
“اوہ خدایا۔۔۔”سبین اب کھڑی ہو کر ٹہلنے لگی تھی۔دایاں ہاتھ کمر پر ٹکا تھا اور بائیں ہاتھ سے وہ گھبراہٹ کے مارے ماتھا سہلا رہی تھی۔
احمر سہما ہوا بیٹھا تھا اور نظریں جھکائے بری طرح شرمندہ تھا۔
“ابھی کوئی ٹاسک ملا ہے تمہیں؟”کچھ دیر ٹہلنے کے بعد وہ اپنے بھائی کی سمت آئی اور بےچینی سے پوچھا۔
“جی۔۔۔”یک لفظی جواب آیا۔
“کیا؟”فوراً سوال کیا گیا۔
“مجھے دوسری اورکاز سے بات کرنی ہے کال پر۔”اس نے ٹاسک بیان کیا۔
“دوسری اورکاز۔۔۔یہ کیا ہے؟اورکا تو مچھلی ہوتی ہے نا؟”جو احمر نے کہا تھا وہ سبین کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
“جی وہ وہیل ہوتی ہے اور جو بھی پلیئر گیم میں ہیں،ان سب کا نام اورکا ہے جو گیم کا نام ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پلیئرز سے بات کرنی ہے۔”احمر نے تفصیل سے سمجھائی۔اب وہ کافی حد تک سنبھل چکا تھا۔
“تم نے بات کی؟”اگلا سوال کیا گیا۔
“نہیں۔”یک لفظی جواب آیا۔
“اور اگر تم ٹاسک پورا نہیں کرو گے تو کیا ہوگا؟”ایک اور سوال۔
“پتہ نہیں۔۔۔شاید مجھے کوئی پنشمینٹ ملے یا پھر کچھ اور۔”نپا تلا جواب تھا۔
“تو تم ٹاسک پورا نہیں کرو پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔”سبین کو اب یہ تمام باتیں اتنی بھی خطرناک نہیں لگ رہی تھیں۔
“میں زیادہ دن ٹاسک کو نہیں چھوڑ سکتا ہے آپی۔”احمر ہنوز خوف زدہ تھا۔
“کیوں؟”وہ الجھی۔
“کیونکہ اگر میں نے ٹاسک پورا نہیں کیا تو وہ میرا ڈیٹا لیک کر دیں گے یا شاید ہم میں سے کسی کو نقصان پہنچائیں گے۔”اس کے علم میں جو بھی باتیں تھیں اس نے وہ کھول کر اپنی بہن کو بیان کیں۔
“مجھے نہیں لگتا ایسا کچھ ہوگا۔”سبین نے اسے تسلی دی۔
“نہیں آپی۔۔۔مجھے لگتا ہے وہ لوگ بہت ڈینجرس ہیں۔مجھے ٹینشن ہو رہی ہے بہت۔”وہ بتاتے ہوئے رونے لگا تھا۔
“اب رونے کا کیا فائدہ؟”سبین نے ملامتی انداز میں اسے جتایا۔
“مجھے معاف کر دیں آپی،مجھ سے غلطی ہو گئی۔”وہ بےطرح شرمندہ تھا اور سر جھکائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
سبین یونہی کھڑی افسردگی سے اسے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ آخر اس معاملے میں غلطی کس کی تھی؟
نوجوانی کی دہلیز پر کھڑا بچپن ضرورت سے زیادہ توجہ کا متقاضی ہوتا ہے۔عمر کے اس حصے میں کی گئی غلطیاں سنگین نتائج لے کر آتی ہیں،عمر بھر کا روگ بن جاتی ہیں اور کبھی کبھار زندگی کیلیے خطرہ بن جاتی ہیں۔
“اب کیا ہوگا آپی؟”کچھ دیر کی خاموشی کے بعد احمر کی آواز نے سناٹے کو چیرا۔
سبین نے پتھرائی آنکھوں سے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔ذہن میں اس کے الفاظ گردش کرنے لگے۔
“اب کیا ہوگا۔۔۔”وہ بھی اسی نقطے پر ٹہر گئی تھی۔ان دونوں پر سکوت چھایا ہوا تھا۔
“سِنان۔۔۔۔۔”اندھیری رات کے سکوت میں ایک نام امید کا جگنو لیے ابھرا۔
“احمر تم کمرے میں جاؤ اپنے اور سو جاؤ،کوئی ٹاسک ابھی پورا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں کچھ کرتی ہوں۔”ایک نام پر ٹہر کر اسے کچھ تسلی ہوئی تھی۔وہ ایف آئی اے آفیسر تھا۔وہ شاید اس معاملے میں اس کی مدد کر سکتا تھا۔
“آپی پلیز ماما پاپا کو مت بتانا ورنہ وہ بہت ناراض ہوں گے مجھ سے۔”وہ کھڑا ہوا اور اس سے پھر التجا کی۔
“نہیں بتاؤں گی مگر تم ابھی کوئی ٹاسک پورا نہیں کرو گے۔”اس نے احمر کو تسلی کرانے کے ساتھ متنبہ کیا۔
وہ اثبات میں سر ہلا کر دروازے کی سمت بڑھنے لگا۔
“سنو۔۔۔”پیچھے سے آئی اپنی بہن کی پکار پر وہ پلٹا۔
“ٹینشن مت لینا،جب تک تمہاری بہن زندہ ہے تمہیں نہیں مرنے دے گی۔”سبین نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔آنکھیں نم تھیں اور دل پریشان مگر اپنے بھائی کی ہمت بندھائی تھی۔
وہ بھی نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر وہاں سے چلا گیا اور اس کے جانے کے بعد وہ اپنے بیڈ پر آ بیٹھی۔سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور نگاہیں اس کی سکرین پر مرکوز کر دیں۔
***
جاری ہے