وہ گیم کے خالق سے مل کر باہر نکلا اور اب وہ ایک جدید طرز کے بند آفس میں بیٹھا تھا۔یہاں اس وقت دو نفوس موجود تھے،ایک وہ خود اور دوسرا رشیا کا آفیسر جس کا یہ آفس تھا۔اب وہ آفیسر اسے مزید معلومات فراہم کر رہا تھا،اس مجرم کے حوالے سے جس سے ابھی ابھی وہ ملاقات کر کے لوٹا تھا۔
یوں تو اس کے ذہن کی ساری گرہیں اب کھل چکی تھیں اور وہ اب پوری طرح مطمئن تھا اور ساتھ ہی وہ تیاری کر رہا تھا۔مستقبل میں آنے والے خطروں کی تیاری۔اس کی وجہ مایوسی اور توکل کی کمی نہیں تھی بلکہ یہ تدبیر تھی جو لگانی تھی تا کہ تقدیر کو سنوارا جا سکے۔
“بہت شکریہ سر کہ آپ نے یہ ملاقات رکھوائی۔”سِنان نے شکر گزار ہو کر بات کا آغاز کیا۔سامنے روسی آفیسر بیٹھا تھا،مسکرایا اور سر کو جھکا کر اس کی شکر گزاری قبول کی۔
“آپ جو معلوم کرنا چاہتے تھے وہ پتہ چل گیا؟”آفیسر جس کا نام ڈینِس تھا،اس نے سوال کیا۔
“جی سبھی کچھ پتہ چل گیا اور جیسا میں نے سوچا تھا ویسا ہی نکلا۔اس پر ہوئے ٹارچر کی سبب وہ سائیکو ہو گیا اور اسی وجہ سے یہ سارا رائتہ پھیلا۔”وہ لوگ انگریزی میں محوِ گفتگو تھے کہ یہ زبان ان دونوں کو آتی تھی۔
“درست کہا۔اسے bipolar disorder ہے۔۔یو نو مینِک ڈپریشن۔اسی وجہ سے اسے ایکسٹریم موڈ سوئنگز ہوتے ہیں اور وہ کبھی بہت زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے تو کبھی بہت لو فیل کرتا ہے،غمزدہ،ڈپریسڈ۔۔۔”ڈینِس نے اس کی نفسیاتی بیماری کا خلاصہ کیا۔
“ہمم یہ بچپن میں کیے گئے ابیوز کی وجہ سے ہی ہے۔”سِنان پرسوچ انداز میں گویا ہوا۔
“ایک انسان دوسروں کو وہی کچھ دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے سو ایک ڈپریسڈ شخص ڈپریشن ہی تقسیم کرے گا۔”سِنان نے مزید تجزیہ کیا اور سامنے بیٹھے شخص نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے تائید کی۔
“صحیح کہہ رہے ہو ایک لمبی لسٹ ہے میرے پاس ایسے سائیکوز کی۔”ڈینِس نے اتفاق کیا۔
“اچھا جی۔۔۔”سِنان نے بات پر بات کہی۔
“ہم نے اسے چار پانچ مہینے پہلے اریسٹ کر لیا تھا اور اسی وقت گیم بند کر دیا تھا۔رشیا میں تو اسی وقت بند ہو گیا تھا گیم مگر باقی سب جگہ بند ہوتے ہوتے تھوڑا وقت لگا لیکن گیم کی وجہ سے ہونے والی سوسائیڈ کے کیسز اس کے بعد بھی سامنے آتے رہے اور حد تو یہ ہے کہ ابھی تک سامنے آ رہے ہیں۔”ڈینِس کی آواز میں صدمہ تھا اور اس کی وجہ بھی تو عام نہیں تھی نا!یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے گیم کے ذریعے سے لوگوں کو خودکشی پر مجبور کیا تھا۔
“پاکستان میں تو یہ گیم تین مہینے پہلے بند ہوا ہے۔باقی ہمارے یہاں بھی کیسز سامنے آئے ہیں جس میں لوگوں نے گیم بند ہونے کی وجہ سے سوسائیڈ کر لی۔ڈپریشن اتنا بڑھ گیا تھا کہ کچھ سوجھا ہی نہیں۔”سِنان نے سوچتے ہوئے بتایا۔
“یہ دیکھو۔۔۔”اس کی بات کے جواب میں ڈینِس نے اپنی دراز میں سے کچھ لفافے نکال کر اس کے سامنے،میز پر رکھے۔ان میں کچھ ٹیڈی بیئرز اور سرخ گلابوں کے گلدستے بھی موجود تھے جو اب مرجھا چکے تھے مگر ہنوز خوشبو پھیلا رہے تھے۔
“یہ کیا ہے؟”سِنان کی نظروں میں تعجب اترا۔
“یہ وہ لیٹرز ہیں جو اس شخص کے چاہنے والوں نے جیل میں بھیجیں ہیں اسے اور ان میں سے زیادہ تر لو لیٹرز ہیں جن میں لڑکیوں کی شدید محبت بھرے جذبات کی داستانیں درج ہیں۔آپ دیکھیں ذرا نوجوان نسل کی بربادی کہ ایک مجرم سے محبت ہو رہی ہے ان کو اور اس کی وجہ بس اتنی ہے کہ وہ شخص حسن کا شاہکار ہے اور معصوم دکھتا ہے۔لوگوں نے شکایتیں کی ہیں مجھ سے کہ بھلا ایسے خوبرو اور معصوم شخص کو سزا کیسے سنا سکتے ہیں آپ لوگ؟”ڈینِس بھرا بیٹھا تھا سو بولتا چلا گیا۔
“یہ واقعی الارمنگ سچویشن ہے۔پتہ نہیں کیا ہوگا آنے والی نسل کا!”سِنان کو بھی افسوس ہوا۔
“یہ لو لیٹرز،سرخ گلاب اور ٹیڈی بیئر وغیرہ پچھلے مہینے ویلنٹائن کے موقع پر موصول ہوئے تھے اس کو۔”ڈینِس کی بات سن سِنان نے خطوط پر غور کیا۔لفافوں پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مختلف عبارتیں درج تھیں۔
“ایک اور نفسیاتی کا بنایا گیا،ایک اور نفسیاتی کھیل جس میں لوگ اپنی حوس کی بھوک مٹانے کو محبت کا نام دیتے ہیں۔غیر مسلموں کی فحش رسم جو مسلمانوں میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔کسی بھی روایت کی پیروی کرنے سے پہلے کم از کم تھوڑی تحقیق تو کرنی چاہیے کہ آیا ایسے تہواروں کی تقلید کرنا درست بھی ہے یا نہیں۔”وہ خطوط دیکھتے ہوئے غور کر رہا تھا،اپنی قوم کی سو کالڈ ترقی یافتہ سوچ پر جو بس مغرب کی طرز پر جینا چاہتی ہے۔
“اور یہ دیکھیں۔”اب اس نے اپنا لیپ ٹاپ اس کی جانب کھسکایا۔سکرین نمایاں ہوئی کہ جس میں ای میلز کھلی ہوئی تھیں۔
“ایک ایک کر کے دیکھتے جائیں۔یہ وہ میلز ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں سے موصول ہوئی ہیں کیونکہ لیٹر بھیجنا ان کیلیے مشکل تھا تو انہوں نے میلز بھیج دیں۔”وہ تفصیلات بتا رہا تھا اور سِنان سکرین کو اوپر کی جانب کھسکا رہا تھا کہ تبھی ایک تصویر دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں،اس نے وہ ای میل کھولی اور پڑھنا شروع کی۔وہ ای میل انگریزی میں تھی اور بھیجنے والے نے بہت پیار سے لکھی تھی۔
Dear Dimitri;
You are the one who stole my heart.I don’t know how I fell in love with you but these feelings are so intense.You have cast a spell on me.If not Dimitri, then not Samra either.
Good bye my love…
You will never know that how much this crazy girl loves you.
You and Me..
May be in another universe…
Yours Samra
کچی عمر کی ادھوری محبت کے ایک ناتمام قصے کا مختصر سا حصہ۔۔۔
سِنان نے وہ خود پڑھا اور مزید راز کھل گئے۔وہ تصویر دیکھ کر ہی پہچان گیا تھا کہ وہ سبین کی کزن ثمرہ تھی اور اس کی عشقیہ داستان بھی پڑھ چکا تھا جو اس کی حسرتوں کو بیان کر رہی تھی۔اسے افسوس ہوا کہ ایک نوجوان لڑکی نے اس وجہ سے خودکشی کر لی۔
“ثمرہ تو گیم بنانے والے کی وجہ سے مری ہے۔یو اینڈ می اینڈ دوسری یونیورس،واہ کیا خواب تھے لڑکی کے،فریب میں ڈوبے ہوئے۔”سِنان کے سامنے کھل گیا تھا ثمرہ کی موت کا راز۔
میل پڑھ کر سِنان نے لیپ ٹاپ ڈینِس کی سمت بڑھا دیا۔
“کتنے سال کی سزا ہوئی ہے؟”سِنان نے سوال کیا۔
“تین سال کی۔”ڈینِس نے گہری سانس خارج کی۔
“بس؟”اس نے ازراہِ معلومات دریافت کیا۔
“ہاں بس کیونکہ مجرم نے کسی کو بھی خود قتل نہیں کیا بلکہ سب نے سوسائیڈ کی ہے تو اس حساب سے اس کی سزا اس معاملے میں بنتی نہیں ہے۔بس لوگوں کی معلومات ہیک کرنے اور سائبر ہراسمنٹ کی وجہ سے سزا ملی ہے اسے۔”ڈینِس نے تفصیل سے روشنی ڈالی اور یوں یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔دونوں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور الوداع لی۔
سِنان نے اپنے قدم آفس کے دروازے کی سمت بڑھا دیے۔
“ایک ایسا شخص جس کی وجہ سے اتنے لوگ مرے،اسے صرف تین سال کی سزا ملی کیونکہ کوئی بھی اس کی وجہ سے نہیں مرا سب نے اپنے ہاتھوں مات کھائی۔اس میں گیم بنانے والا کا قصور نہیں تھا بلکہ گیم کھیلنے والے قصوروار تھے۔”وہ آگے بڑھ رہا تھا اور سوچیں دماغ میں گردش کر رہی تھیں۔
***
فائیو سٹار ہوٹل کے ایک دیدہ زیب کمرے میں وہ اس وقت موجود تھا۔کمرہ چھت پر لگے قیمتی فانوس کی سنہری روشنی میں چمک رہا تھا جبکہ باقی روشنیاں گل تھیں۔دیوار گیر گھڑی رات گیارہ کا وقت بتا رہی تھی۔
وہ روسی آفیسر سے ملاقات کر کے لوٹ آیا تھا۔یہی وہ اہم کام تھا جس کیلیے وہ خاص طور پر رشیا آیا تھا،اس گیم کے خالق سے ملنے اور اس سے گفتگو کرنے۔کام ہو گیا تھا۔آفیسر ڈینِس کے ساتھ کی بدولت وہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوا تھا ورنہ یہ ناممکنات میں سے تھا کہ کوئی پاکستانی آفیسر ایک مجرم سے جا کر مل سکے جو روسی فوج کی قید میں تھا مگر یہ ممکن صرف ڈینِس کی وجہ سے ہوا تھا جس کے سِنان سے گہرے مراسم تھے۔
وہ دایاں ہاتھ موڑ کر سر کے نیچے رکھے،بائیں ہاتھ سے موبائل کی سکرین کو چہرے کے سامنے کیے مسکرا رہا تھا۔سکرین پر اس کی زندگی کی رونق موجود تھی۔اس کی سبین،اس کی خانم،اس کی عورت۔
وہ بھی اسے دیکھ مسکرا رہی تھی۔وہ دونوں سکائپ پر ویڈیو کالنگ میں مشغول تھے اور باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو نہار رہے تھے۔
“آپ کب تک آئیں گے؟”وہ آنکھوں میں بےچینی لیے گویا ہوئی۔وہ بھی بیڈ پر دراز تھی اور ہاتھ میں موبائل پکڑے کچھ اضطرابی کیفیت میں تھی۔
“کیوں خانم؟ابھی ایک ہی دن تو ہوا ہے،ابھی سے مس کرنے لگیں اپنے مرد کو۔”وہ اسے چھیڑنے لگا۔آخر کو اچھا موقع تھا۔
“ایک دن نہیں۔۔۔ایک دن اور ایک رات۔۔۔”اس نے نروٹھے پن سے جواب دیا۔
“اوہو تم تو ایک ایک پل گن رہی ہو یارا۔”اس نے مزید چھیڑا اور وہ مزید روٹھ گئی۔
“بس بس نیچے آ جائیں ورنہ کوئی چیل آپ سے ٹکرا کر شہید ہو جائے گی۔”اس نے آنکھیں گھمائیں اور اس کا خوش فہمی کا غبارہ پھاڑنے کی ادنی سی کوشش کی۔
“ارے خانم یہ تم بھی جانتی ہو کہ میں ہوا میں نہیں اڑ رہا اور یہ سچ ہے۔۔۔”وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ گیا تھا۔
“بس بہت ہو گیا اب یہ بتا دیں کہ کب تک آئیں گے۔”اس نے بات کا رخ موڑا تو سِنان ہنس پڑا۔
“کل تک آجاؤں گا۔”بالآخر سبین کے دل کو قرار ملا اور وہ دوسری باتوں کی جانب متوجہ ہوئی۔
اب وہ اسے مختلف باتیں بتا رہی تھی جو اس ایک دن میں رونما ہوئی تھیں اور وہ اسے پیار سے دیکھتے ہوئے سن رہا تھا کہ یہی اس کا کام تھا۔وہ بولتی تھی اور وہ پہروں سنتا تھا،بنا تھکے بنا ٹوکے۔۔۔
“گیم آیا اور چلا گیا۔بظاہر سب کچھ ٹھیک ہو گیا مگر سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی سب ٹھیک نہیں ہوا ہے کیونکہ یہ آغاز تھا ایک۔ایک چنگاری،ابھی اس کا انجام ہوگا،آگ پھیلے گی اور سب کو لپیٹ میں لے گی۔”وہ سبین کی باتیں سنتے ہوئے اپنی ہی سوچوں میں مگن تھا۔