“یہ نئے دور کی شروعات ہے۔جنریشن زی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔اب یہ مزید آگے جائے گا۔ہمیں اس کیلیے تیاری کرنی ہو گی۔اگر اپنی نسلوں کو تباہی سے بچانا ہے تو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ انجام بھیانک ہوگا۔”وہ سبین کی سمت دیکھ رہا تھا اور اسے اپنا مستقبل دکھائی دے رہا تھا۔سبین تخلیق کے مرحلے سے گزر رہی تھی۔کچھ عرصہ میں وہ والدین کے منصب پر فائز ہونے والے تھے اور رب کی جانب سے ایک بھاری ذمہ داری ان کے کندھوں پر پڑنے والی تھی۔اس کی تیاری کرنی تھی۔
“وہ جو اس دنیا میں ہمارے ذریعے سے آنے والا ہے،وہ نعمت تو ہے ہی مگر امانت بھی ہے۔اللہ کی امانت کہ جسے سنبھال کر رکھنا،اس کی تربیت کرنا،اس کو بہترین مسلمان اور انسان بنانا والدین کا فرض ہے اور اس فرض میں کوتاہی دراصل اللہ کی دی گئی امانت میں خیانت کرنا ہے اور خیانت کرنے والا منافق۔۔۔”اس کا ذہن مستقبل کے منصوبے بنا رہا تھا کہ ڈر و وسوسوں میں رہنے کی بجائے حکمت عملی تیار کرنا ضروری تھی۔
سبین آج رونما ہوئے تمام واقعات ایک ایک کر بتا رہی تھی اور وہ پوری توجہ سے سن رہا تھا مگر ذہن میں اپنی اولاد کا مستقبل ہی تھا جو ابھی سے اسے دکھائی دے رہی تھی،اپنی بیوی کے وجود سے جڑی۔
“ایک گیم آیا اور نوجوانوں کو اپنا عادی بنا کر ان کی زندگی برباد کر گیا۔کتنا آسان تھا نوجوان نسل کو گمراہ کرنا اور انہیں اپنے قابو میں کر کے خود ان ہی کے خلاف استعمال کرنا۔”وہ فکرمند تھا مگر اندر ہی اندر۔سبین کو البتہ وہ کوئی ایسا تاثر نہیں دے رہا تھا کہ وہ اس حالت میں فکرمند نہ ہو جائے۔
وہ ابھی بھی اپنی روداد سنانے میں مگن تھی۔
“کسی نے بلیک میلنگ میں آکر تو کسی نے ڈیٹا بچانے کیلیے،کسی نے اس شخص سے مرعوب ہو کر تو کسی نے اس کو دل دے کر،مگر زندگی ہار دی۔اس کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچے اور خود کو برباد کر دیا۔”دل میں افسوس جاگا۔ان بچوں اور والدین کیلیے جو بےفکری کی موت مارے گئے تھے۔
“کاش کہ اس بارے میں پہلے سے آگاہی ہوتی تو کمپین چلا کر نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔”دل میں خواہش جاگی جو کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی۔اگر پہلے سے گیم کا اندازہ ہوتا تو کچھ نہ کچھ تو کرتے ہی والدین مگر کیا سچ میں کرتے؟یہ سوال تھا جو مستقبل کیلیے تھا۔
“اب تو مجھے گیم کے بارے میں ہر بات پتہ ہے۔اس کو بنانے والے کا نام،اصل نام،اس کی برتھ پلیس اور حالیہ ایڈریس،گیم کو بنانے کے پیچھے اس کے مقاصد اور گیم سے ہونے والے نقصانات اور گیم کا نوجوانوں کی نفسیات پر اثر۔۔۔اب سب واضح ہو چکا ہے اور بہت بھیانک انداز میں سامنے ہے لیکن صد شکر ہے کہ اس کی روشنی میں،میں اپنی اولاد کو محفوظ کر سکتا ہوں اور انہیں بچا سکتا ہوں مستقبل میں آنے والے مزید اس طرح کے گیمز سے۔”سوچیں ہی سوچیں تھیں جبکہ سکرین کی دوسری جانب باتیں ہی باتیں تھیں۔
“اب وقت آگے بڑھے گا اور خطرناک سے خطرناک ہوتا جائے گا۔ایسے میں بس ایک ہی چیز ہے جو ہمارے مستقبل کے معماروں کو محفوظ رکھ سکتی ہے اور وہ ہے اسلام کے اصولوں کے عین مطابق کی گئی تربیت۔”وہ منصوبے بنا رہا تھا اور سبین ہنستی ہوئی کوئی بات سنا رہی تھی۔
“بچوں کو جدت سے دور نہیں رکھ سکتے۔وہ جس دور میں پیدا ہوں گے،اس دور سے انہیں انجان نہیں رکھ سکتے ورنہ تو اور بھی مسائل بڑھ جائیں گے لیکن ہاں ان چیزوں کا انہیں صحیح استعمال سکھا سکتے ہیں کیونکہ اب ہمیں اس سب بارے میں تمام معلومات ازبر ہیں۔ایک نسل نے جب دیکھ لیا ہے کہ گیم بھی لوگوں کی جان لے سکتا ہے تو اگلی نسل کو اس طرح کے خرافاتی گیمز سے بچانے میں انہیں آسانی پیش آئے گی۔کوئی بھی شے جو لت کی طرح لگے،ٹھیک نہیں۔گیم کھیلنا یا فیس بک وغیرہ کا استعمال خطرناک نہیں مگر کچی عمروں کے بھٹکنے میں معاون ضرور ہے۔پچھلی نسل تو اس نسل کو نہ بچا سکی کہ انجان تھی مگر یہ نسل اگلی نسل کو ضرور بچا سکتی ہے کہ اس میدان میں ماہر ہے۔”سِنان کی سوچیں دراز ہو رہی تھیں۔
“بچوں میں تہذیب کو زندہ رکھنا ہوگا۔کہیں یہ نہ ہو کہ تہذیب دفن ہو جائے اور سب ختم ہو جائے۔تعلیم کے ساتھ تہذیب و تربیت بھی ضروری ہے اور یہ والدین کی ذمہ داری ہے۔”وہ پیار سے اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔
“یا اللہ مجھے ثابت قدم رکھنا اس دور میں کہ جب فتنے مزید زور آور ہوں گے اور ٹیکنالوجی کی نسبت سے بھی انسانوں کے درمیان اتر کر انہیں تباہ کریں گے۔”اس کا مشاہدہ گہرا تھا اور وہ اسی مشاہدے کے مطابق اپنے رب سے دعا کر رہا تھا۔پیار
بھری نرم نگاہیں اپنی بیوی پر ٹکی تھیں جو کچھ اہم بات بتا رہی تھی اور اب اس کی بھرپور توجہ کی متقاضی تھی۔
“سِنان غور سے سنیں میری بات۔۔۔”وہ اٹھلائی۔
“بولو میری جان،میری خانم۔میری تو سماعتیں تمہیں سننے کیلیے ترستی ہیں اور آنکھیں تمہارے دیدار کی متلاشی رہتی ہیں۔”مخمور،گہری آواز میں اس نے کہا تو سکرین کی دوسری جانب موجود اس کی بیوی شرما کر سرخ ہو گئی اور وہ اس منظر کو نگاہوں میں قید کرنے لگا۔
رات ڈھل رہی تھی اور ہر کوئی سویرے کا منتظر تھا مگر کیا آنے والے وقتوں میں سویرے نے رخ دکھلانا تھا یا اب یہ اندھیرا بڑھتا ہی جانا تھا؟
ختم شد
***
حرفِ آخر
جی تو ہو گیا ناول کا اختتام اور پورا ہوا دو ہزار تیرہ سے لے کر دو ہزار سترہ تک کا سفر۔۔۔ہم لوٹ آئے ماضی سے واپس حال میں۔۔۔تو اب حال کے متعلق ہی بات کریں گے۔
میں نے کبھی بھی اپنی کسی تحریر میں حرف آخر نہیں لکھا کہ اس کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن یہ ناول مجھ سے اس اختتامیہ کا تقاضا کر رہا ہے سو میں اپنی تحریر کی بات کیسے ہی ٹال سکتی ہوں سو حاضر ہے ناول کی مصنفہ کے قلم سے کچھ اہم نکات کہ جن پر روشنی ڈالنا دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔
تو ادوار سے سمجھوتہ کر لینے والو سنو۔۔۔تہذیب تمہیں بلا رہی ہے۔۔۔
ماضی میں غلطی کے مرتکب ہونے والو سنو۔۔۔مستقبل کو تم سنوار سکتے ہو مگر سوچنا یہ ہے کہ کیسے
گو کہ میں نے پوری تحریر میں اس کی بہت جگہ وضاحت کی ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں اور کس چیز سے کیسے بچ سکتے ہیں مگر وہ دو ہزار تیرہ سے لے کر دو ہزار سترہ تک کا عرصہ تھا کہ جب یہ خونی گیم کی کہانی شروع ہو کر اختتام پذیر ہو گئی اور اب ہم کھڑے ہیں اس وقت سے قریباً دس سال آگے کہ جس کے حوالے سے کردار صرف خواب بن رہے تھے یا حکمت عملی تیار کر رہے تھے۔اب ماجرا یہ ہے کہ کردار تو اسی دور میں چھوٹ گئے ہیں مگر ہم اور آپ آگے بڑھے ہیں،یہاں تک پہنچے ہیں اور اب اپنی آنکھوں سے انجام دیکھ رہے ہیں مگر کس چیز کا انجام؟؟؟
ارے بھئی اس کا انجام کہ جس کا آغاز پورے ناول میں دکھایا گیا ہے۔جی ہاں وہ جو ناول میں درج ہے وہ آغاز تھا اور ابھی جو عہد ہم گزار رہے ہیں وہ اسی آغاز کا انجام ہے جو کہ بھیانک ہے اور ابھی مزید بھیانک ہوتا جائے گا۔
جنریشن زی سے آغاز ہوا کمپیوٹر ایج کا اور اس کے بعد اس دوڑ میں شامل ہوئی جنریشن ایلفا۔وہ کسر جو جین زی نے اٹھا رکھی تھی،وہ جین ایلفا نے پوری کی اور اب اس سال سے شروعات ہوئی ہے جنریشن بیٹا کی کہ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ جنریشن اے آئی کا عروج دیکھے گی اور یہ وہ جنریشن ہو گی جسے،اے آئی کے بغیر دنیا کا کیا تصور تھا،یہ معلوم ہی نہ ہوگا۔خیر ہمارا موضوع فی الحال اے آئی نہیں ہے بلکہ لت ہے۔۔
جیسا کہ سِنان نے پورے ناول میں شروع سے آخر تک اس بات کی رٹ لگا رکھی کہ کوئی گیم کسی کی جان نہیں لے سکتا اور میں بھی سِنان خان آفریدی کی بات سے متفق ہوں،دمتری کی رائے اور اس کے حالات و واقعات جاننے کے بعد یہ بات اور وزن دار ہو گئی ہے کہ گیم کسی کی جان نہیں لے سکتا۔
تو پھر کس نے لی ان معصوموں کی جانیں؟کیوں مر گئے وہ لوگ؟اگر جو گیم نہ ہوتا تو کیا کوئی خود کو اذیت پہنچا کر یوں بھری جوانی میں اپنا وجود موت کے حوالے کرتا؟جانتی ہوں کہ یہ سوال ہوں گے ذہن میں تو جواب سنیں یا یوں کہہ لیں کہ سنیں ان انجان نفوس کی اموات کی اصل وجہ۔۔۔
ان کی موت کی اصل وجہ تھی لت،نشہ،ہر چیز جو حد سے تجاوز کر جائے اور آپ کے دماغ پر قابض ہو کر اسے مفلوج کر دے،وہ خطرناک ہے،وہ لت ہے،وہ ایڈکشن ہے
اب چلیں ذرا ایک نظر ماضی کے ان سالوں پر دوڑاتے ہوئے حال پر نظر ڈالتے ہیں کہ ایک دہائی میں کیا کیا تبدیل ہو گیا اور کیا کیا مماثلت رہی۔
ماضی میں گیمنگ اور سوشل میڈیا ایڈکشن اتنی زیادہ نہیں تھی مگر شروعات اس کی ہو چکی تھی اور حال میں یہ حد سے تجاوز کر گئی ہے کہ اب کسی خونی گیم کی ضرورت نہیں بلکہ لوگ ہر دوسرے گیم سے ایڈکٹ ہو رہے ہیں اور اس کے بند ہونے پر خودکشی کر رہے ہیں۔یہ گیم آگ کی طرح پھیل رہے ہیں معاشرے میں۔
گیم کھیل کر پیسہ کمانا عام ہو گیا ہے۔بڑے بڑے انفلیوئنسرز اور کانٹینٹ کری ایٹر ان گیمز کی پرومشنز کر رہے ہیں اور جلد امیر ہونے کی خواہشات کی دوڑ میں، لوگ ان گیمز کی سمت اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔
پہلے یہ گیم صرف تفریح فراہم کر رہے تھے پھر انہوں نے لت لگائی،مایوس کیا اور جان تک لینے کے درپے پہنچا دیا مگر اب یہ گیم آپ لوگوں سے جوا کھلوا رہے ہیں۔جی ہاں جوا،وہ گیم جسے کھیل کر آپ پیسے کما رہے ہیں،کیا آپ نے کبھی تصدیق کی کہ وہ گیم کا پیسہ حلال بھی ہے؟اور اس کی کمائی کے پیچھے کیا عوامل پوشیدہ ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر گیم ہی جوا ہے ہاں مگر اکثر۔۔۔
جیسے آج کے دور میں بھی ہر گیم نشہ یا لت نہیں ہے لیکن اکثر ہی۔۔۔
آج کے دور میں سکرین کا نشہ ہے لوگوں کو۔خدارا خود کو اور اپنے بچوں کو اس نشے سے بچائیں ورنہ ہماری نسلیں برباد ہو جائیں گی۔بچوں کو گیم میں فائٹر بنانے کی بجائے اصل زندگی میں مجاہد بنائیں۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ قیامت یونہی آجائے گی؟نہیں قیامت سے پہلے فتنے آئیں گے اور آج کے دور کا ایک اہم فتنہ یہ گیمز اور ان سے ہونے والی تباہیاں ہیں۔
چند قصے درج کر رہی ہوں جو شاید آپ نے بھی خود دیکھے اور سنے ہوں۔
ایک آٹھ سے دس سالہ بچے نے گیم کے پیچھے اپنے خاندان کی جمع پونجی لٹا دی۔یہ سب بےخبری میں ہوا۔وہ دن رات موبائل پر گیم کھیلتا رہتا تھا اور اس گیم میں پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا تھا نئے فیچرز کو کھولنے کیلیے سو آن لائن پیمنٹ کرنا اس بچے کو آتی تھی جیسے کہ آج کل عام ہے تو وہ یونہی بنا کسی کو بتائے پیسے بھر دیا کرتا تھا اور اسی چکر میں اس نے چھ لاکھ روپے گنوائے۔خاندان والوں کو پتہ چلا تو غصہ ہوئے اور ویڈیو بھی بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی۔اب اس میں جتنی اس بچے کی غلطی تھی،اس سے زیادہ والدین کی غلطی تھی۔انہیں بچے کو تنہا موبائل استعمال کرنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔جب آج کل کے دور کا پتہ ہے تو نظر رکھنی چاہیے تھی اس پر۔
اگلا واقعہ ایک نشئی کا ہے جو پب جی گیم میں اتنا غرق تھا کہ گیم میں موجود کریکٹرز کی طرح حرکتیں کرنے لگا تھا۔اسے ہاسپٹل لایا گیا تو پتہ چلا کہ یہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔وہ لڑکا خود کو اس دنیا میں محسوس کر رہا ہے اور اس کا کریکٹر بنا ہوا ہے۔
اور پب جی بین ہونے کی وجہ سے خودکشیاں سامنے آئی تھیں،وہ تو ہم سب کو ہی پتہ ہیں کہ کیسے ایک گیم کے بند ہونے پر کئی خواب دیکھتی آنکھوں نے اپنے زندگی پر موت کو ترجیح دی تھی۔
یہ وقت بھیانک ہے۔جنریشن زی اور ایلفا کے عروج کا دور۔آپ کو آئے دن ایسے واقعات دیکھنے یا سننے کو مل جائیں گے۔ہماری اگلی نسل گونگی ہے کیونکہ وہ سکرین کی بدولت صرف دیکھنا اور سننا جانتی ہے مگر بولنا نہیں۔اپنے بچوں کو زبان دیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سکرین کو ان سے دور کر دیں مگر ہاں ان پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کو پورے دن میں بس ایک دو گھنٹے ہی یہ تفریح فراہم کریں تا کہ یہ محض تفریح ہی رہے۔
تفریح تجاوز کر کے تباہی نہ بن جائے،اس پر غور رکھیں۔
اولاد امانت ہے اللہ کی،اس کے خائن ہونے سے بچیں
آئیں آپ کو حل بتاتی ہوں کہ کیسے اپنے بچوں کو جدید فتنوں سے بچانا ہے۔
سب سے پہلے تو بچوں کو بچانے کیلیے ضروری ہے کہ آپ خود کو بھی بچائیں یعنی کہ اگر بچہ ایک یا دو گھنٹے سکرین کو وقت دے گا تو آپ نے بھی سکرین کو اتنا ہی وقت دینا ہے۔پہلے اپنی لت کو ختم کریں۔مشکل ہے پر ناممکن نہیں۔
اپنا وقت محدود کریں اور کوشش کریں کہ بچے کی ہمراہی میں ہی سکرین دیکھیں جیسے ہم بچپن میں اپنے پیرنٹس کے ساتھ ٹی وی دیکھتے تھے بالکل ویسے ہی پھر باقی کا وقت بچے کے پڑھنے لکھنے میں صرف ہو گا۔ہاں اس کیلیے سکرین کا استعمال ایک مختلف شے ہے کہ یہ جدید دور کا ایک تقاضہ ہے اور پھر بچے گا بہت سا وقت جن میں انہیں سکھائیں مختلف کھیل جو جسمانی اور ذہنی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہم نے اپنے بچپن میں کھیلے ہیں۔ہمیں کیا پتہ تھا ڈپریشن کا؟مگر آج کل کے بچوں کو پتہ ہے۔انہیں ان چیزوں سے نکالیں۔سکرین کی زیادتی کو خارج کریں۔
اب یہ تو ہو گئے وہ نکات جو اہم تھے اور آپ نے اپنانے ہیں،اب آتے ہیں ایک سیاہ حقیقت کی جانب،اس دور کی بھیانک سچائی کی سمت۔۔۔
وہ یہ ہے کہ آپ آج کل کے بچے کو اتنی آسانی سے یہ سب کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتے کیونکہ آپ ان جنریشن ایلفا کے بچوں سے موبائل چھیننے کی جرات کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ آپ کی زندگی کیسے برباد کرتے ہیں۔ہر چیز تہس نہس کر دیں گے وہ،اگر آپ نے غلطی سے بھی ان سے موبائل چھینا کیونکہ آج کل بچے والدین کے اماں ابا بنے ہوئے ہیں لیکن غلطی اس میں ان والدین کی ہی ہے۔معذرت مگر ان والدین نے اپنے وقتی آرام اور اپنی تفریح کیلیے اپنے بچوں کے مستقبل کو آگ میں جھونکا ہے۔
بچہ کھانا نہیں کھا رہا،موبائل پکڑا دو۔
رو رہا ہے،موبائل پکڑا دو۔
تنگ کر رہا ہے،موبائل پکڑا دو۔
اب جب آپ نے موبائل کو اس کی اماں بنایا ہے تو وہ اپنی ماں کے چھن جانے پر روئے گا بھی اور اپنا غصہ بھی نکالے گا۔
اب ایسے بچوں کیلیے تو دعا کریں اور کچھ حکمت عملی اپنائیں لیکن وہ بچے جو ابھی دنیا میں نہیں آئے ہیں یا ابھی اسی سال دنیا میں آئے ہیں یعنی ہماری نئی نسل جو اس سال متعارف ہوئی ہے،جنریشن بیٹا۔۔۔
ہم انہیں تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ہم ان سے سکرین کو دور کر سکتے ہیں اور اوپر دیے گئے طریقوں پر عمل کر کے انہیں سنوار سکتے ہیں۔ایک نسل تو برباد ہو گئی مگر ایک نسل کو ہم بچا سکتے ہیں۔جانتی ہوں یہ مشکل ہے مگر جوانوں تھوڑی سی ہمت دکھاؤ۔میں یہاں ماں باپ دونوں سے مخاطب ہوں۔
تھوڑی ہمت کریں اور قربانی دیں اپنی نئی نسل کیلیے،بس ایک نسل کی قربانی اور کوشش،ایک پوری نسل کو سدھار دے گی پھر آگے دوبارہ سے تہذیب سے جڑ جائیں گے ہمارے بچے۔
خدارا ادوار سے سمجھوتا نہ کریں،تہذیب کو اپنائیں اور تہذیب کو نسلوں میں منتقل کریں تا کہ اب کی بار دور کی بجائے،نئی تہذیب جنم لے اور ایک دور فنا ہو جائے۔۔۔
یہ ناول پڑھ کر اگر کسی ایک شخص کی بھی اصلاح ہو گئی تو میں سمجھوں گی کہ میری محنت وصول ہو گئی۔
نئے دریچے کھول کر آپ کو سوچوں کے درمیان چھوڑے جا رہی ہوں۔
والسلام! آپ کی مصنفہ سیدہ