Uncategorized

Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Episode 10


ہاسپٹل کے بیڈ پر وہ ابھی تک خاموش لیٹے ہوئے تھا۔
“پھپھو آپ پیکنگ کرلیں میں ڈسچارج کی رسپانسبلٹیز پوری کرکے آتا ہوں۔” رافع نے کمرے کے دروازے سے جھانکتے ماہرا کو مخاطب کیا۔
“ہاں جلدی آٶ۔” ماہرا بیگم نے ہامی بھرکر اسے جلدی آنے کی ہدایت کی۔
رافع پہلے ڈاکٹر سے مل کر اس کے بعد ساری رسپانسبلٹیز پوری کرکے کمرے میں داخل ہوا۔
“آج ہم حویلی جارہے ہیں۔” رافع نے ان سے نظریں چراتے کہا۔
“ن۔۔نہیں میں وہاں نہیں جاٶں گی۔” ماہرا نے ڈرتے ہوئے جلدی سے کہا۔
“دیکھیں پلیز ہم انکل کو ایسی حالت میں یوں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔” رافع نے اسے سچویشن کو سمجھانے کی کوشش کی۔
“ہم چلیں گے۔” منیب نے ہامی بھری تھی۔
“نہیں منیب پلیز وہاں نہیں چلتے مجھے نہیں جانا۔” ماہرا رونا شروع ہوگئیں۔
“کبھی کبھی اپنوں سے ملنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔” منیب نے اس کے چہرے سے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔
رافع نے منیب کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا۔
گاٶں کے حدود شروع ہونے پر ماہرا اور منیب دونوں کی نظروں سے پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔
جیسے جیسے حویلی قریب آرہی تھی ماہرا اور منیب دونوں کے چہرے کا رنگ اڑ رہا تھا۔
“ماضی میں کیے گئے فیصلوں پر پچھتانے کی ضرورت نہیں ہے۔” رافع نے ان دونوں کے چہرے پر اڑے رنگ دیکھ کہا۔
“کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔” ماہرا نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔
“یہاں گاڑی روکو۔” منیب نے خان حویلی کے گیٹ پر کہا۔
“یہاں کیوں؟ اتنا چل کر جانا پڑے گا۔” رافع نے حیرت سے سوال کرتے ساتھ انہیں نقصان بتایا۔
“مجھے یہاں اُترنا ہے۔” منیب نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اپنی بات دہرائی۔
رافع ناسمجھی سے گاڑی روک کر ان کی طرف آکر انہیں گاڑی سے اتارا تھا۔
منیب دروازے کے قریب بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگیا۔
ذہن میں وہ سیاہ رات گھومنے لگی جب اس نے اس معصوم کو یہاں روتے ہوئے لیٹا دیا تھا۔
اس کے لاکھ رونے پر بھی سنگ دل بننا پڑا تھا منیب کو۔
رافع کو اب سمجھ آیا تھا کے وہ یہاں کیوں اُترے تھے۔
“اب پچھتانے کا کیا فائدہ جب اسے تباہ ہی کردیا۔” رافع نے افسوس سے کہا۔
“رافع پلیز اسے اٹھاٶ بہت ہوگیا۔” ماہرا نے گاڑی سے باہر جھانک کر رافع کو کہا۔
“چلیں اُٹھیں اب۔” رافع نے انہیں سہارا دے کر اسے اٹھایا۔
خان حویلی کے اندرونی حصے کے دروازے پر پہنچ کر ماہرا کے دل کو کچھ ہوا۔
“رافع میں نہیں جانا چاہتی۔” ماہرا وہیں سے مڑتے بے بسی سے بولی۔
“میرا ہاتھ تھام کر چلو کیونکہ تم کبھی اپنے فیصلے پر پچھتائی نہیں ہو سر اٹھاکر اس گھر میں داخل ہونا چاہیے۔” منیب نے ماہرا کا ہاتھ تھامتے کہا۔
ماہرا منیب کا ہاتھ زور سے پکڑ کر آنکھیں میچ کر حویلی میں داخل ہوئی تھی۔
سلمہ بیگم کی بیٹی پر نظر پڑی تو وہ جلدی سے اس کے قریب آکر اسے گلے لگایا۔
“اماں!” ماہرا نے بند آنکھوں سے بھی اپنی ماں کو پہچان لیا۔
“میری بیٹی۔” سلمہ بیگم اس کا ماتھا چوم کر روتے ہوئے بولیں۔
ماہرا نے ایک نظر پوری حویلی کو دیکھا تھا جہاں ہر دیوار پر ایک لڑکی اور تینوں لڑکوں کی تصویر لگی ہوئی تھی۔
“یہ۔۔یہ۔۔” ماہرا نے تصویر میں مسکراتی لڑکی کو دیکھ سوالیہ انداز میں کہا۔
“انابیہ ہے اس خاندان کی اکلوتی بیٹی۔” رافع نے اُنہیں جواب دیا۔
“یہ۔۔یہ میری بیٹی ہے۔” منیب کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے تھے۔
“ماہرا ارحاب کو کال کرو۔” منیب نے حسرت سے انابیہ کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کہا۔
“کیا مطلب ہے میں سمجھی نہیں یہ میری بیٹی ہے تو کہاں ہے؟” ماہرا ناسمجھی سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
“و۔۔وہ دراصل۔۔انابیہ ونی میں۔” حیات خان اس سے آگے بول ہی نہیں پائے۔
“کیا! آپ نے اسے ونی میں دے دیا۔” ماہرا نے افسوس و بے یقینی سے حیات خان کی جانب دیکھا۔
“اس کی قسمت ہی خراب تھی اسی دن سے جس دن آپ لوگوں نے اسے پیدا کرکے کچھ ہی گھنٹوں میں حویلی کے دروازے پر چھوڑ کر کسی اور ہی دیس کو نکل گئے۔” شبیر خان نے پہلی بار دکھ سے شکوہ کناں نظروں سے بہن کو دیکھ کہا۔
“ماہرا میں نے کہا ارحاب کو کال کرو۔” منیب نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
“ارحاب کیا کرے گا اسے کیوں کال کروں آخر میں بتاٶ نا۔” ماہرا چیخ پڑی تھی۔
“میٹنگ تھی آج اس سے کال کرکے اسے بولو حویلی آئے۔” منیب نے کچھ بتانے کے بجائے بات بدل دی۔
“مگر ہم میٹنگ یہاں کیسے کریں گے؟” ماہرا کو حیرت ہورہی تھی جہاں اس کی بیٹی کی بات چل رہی تھی وہاں منیب کو بزنس کی لگی تھی۔
“میں نے میسج کردیا ہے وہ آتا ہوگا۔” منیر صاحب نے کہا۔
“بہت شکریہ منیر۔” منیب نے مڑ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔
آدھا گھنٹہ وہاں بیٹھے ہر شخص نے بہت مشکل سے گزرا تھا۔
“سردار سائیں وہ ساتھ والے گاؤں سے ارحاب شاہ آئے ہیں۔” ایک ملازمہ نے آکر اُنہیں اطلاع دی۔
“اسے حویلی میں آنے دو۔” حیات خان نے حکم دیا۔
کچھ دیر میں ارحاب حویلی میں داخل ہوا تھا۔
“خوش آمدید بیٹا۔” منیر صاحب نے اسے سے آگے بڑھ کر گلے ملتے استقبال کیا تھا۔
“بہت شکریہ میں کل کے لیے آپ سے شرمندہ ہوں۔” ارحاب نے منیر کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ کل کے لیے معذرت کی۔
“نہیں اس کی ضرورت نہیں شاید قسمت نے پہلے ہی یہ فیصلہ لیا ہوا تھا۔” منیر صاحب نے پہلی ملاقات کو یاد کرتے کہا۔
منیر صاحب کی بات پر ارحاب کے چہرے پر ہلکی مسکان آئی تھی۔
“مسٹر منیب اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟” ارحاب نے منیب کو وہاں بیٹھے دیکھ سوال کیا۔
“شکر ہے ٹھیک ہوں۔” منیب نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“بیٹھو یہاں پر بیٹا۔” سلمہ بیگم نے رافع کے ساتھ خالی پڑی جگہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“ہانیہ۔” ارحاب نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے خاموش بیٹھی ہانیہ کو پکارا۔
“جی بھائی۔” ہانیہ نے چونک کر جواب دیا۔
“کیسی ہو؟” ارحاب نے سوال کیا۔
“بہت خوش اور خود کو فریش محسوس کررہی ہوں۔” ہانیہ نے سادگی سے کہا۔
“دو دن حویلی سے باہر نکلی ہو اتنی خوش ہو لگتا ہے دادی جان کو بتانا پڑے گا۔” ارحاب نے اسے چھیڑا تھا۔
“ہاں انہیں بتائیے گا ہانیہ بہت خوش ہے، اور ہاں ناز کو بھی بتانا کے ہم دونوں خوش ہیں اگر بھیا کا میسج یا کال آئے اُنہیں بتانا جو فرض آپ پورا نہیں کرسکے وہ ماہیر بھیا نے کردیا ہے۔” ہانیہ کو جیسے موقع مل گیا تھا۔
“ناز کو نہیں بتاٶں گا پہلے ہی صبح وہ رو رہی تھی کچن میں۔” ارحاب نے صبح ناز کو کچن میں روتے دیکھ لیا تھا۔
“پھر انابیہ کو قیمتی اثاثے کی طرح چھپاکر رکھیے گا۔” ہانیہ کے لہجے میں کچھ عجیب محسوس ہوا ارحاب کو۔
“وہ۔۔آج میں بہت خوش ہوا لیکن وہ بار بار ان سب لڑکوں کا ذکر کرکے میرا موڈ خراب کردیتی ہے۔” ارحاب نے خوشی خوشی بتاتے آخر میں منھ بگاڑا۔
“اس کے پاس کوئی لڑکی نہیں تھی اس لیے شاید ایسا ہے۔” ہانیہ کو یہی وجہ لگی تھی کیونکہ وہ جب سے گھر میں آئی تھی اکیلی ہی تھی۔
“نہیں وہ نینا اس کی دوست ہے، وہ ہر بات میں میرے کسی لفظ کو پکڑ لیتی ہے پھر کہتی ہے فلاں نے ایسا کہا ویسا کہا مطلب اگر ایک مجھ جیسا بندہ اٹینشن دے رہا ہے تو اس کا موڈ خراب کرنا وہ فرض سمجھ رہی ہے۔” ارحاب وہیں کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر اپنے دُکھڑے رو رہا تھا۔
“بس وہ لاڈلی ہے شاید اس لیے۔” منیر صاحب نے مسکراتے کہا۔
“بالکل بگڑی ہوئی لاڈلی بیٹی ہے۔” ارحاب نے انابیہ کی شان میں مزید اضافہ کیا۔
“ویسے آج پہلی بار اتنا بول رہے ہو نا؟” حیات خان نے ارحاب کو دیکھتے سوال کیا۔
“ہاں آپ کی پوتی کی صحبت کا اثر ہے۔”ارحاب نے ہامی بھری۔
“اچھا چلیں اس بات کو ختم کرتے ہیں لیکن آپ لوگوں نے مجھے بلایا اس کی کوئی خاص وجہ تھی؟” ارحاب اپنی بات ختم کرتے مدعے پر آیا۔
“ہاں ایک ضروری بات ہے جو ہم نہیں چاہتے تمہیں کسی اور جگہ سے پتا چلے اور تم ناراض ہوجاٶ۔”منیب نے اس کی بات کا جواب دیا۔
“جی بتائیے۔” ارحاب نے سنجیدگی سے کہا۔
“ماہرا دراصل اس حویلی کی بیٹی ہے۔” منیب نے شروع سے بتانا شروع کیا۔
“تمہیں پتا ہوگا یقیناً کے میں نے اور ماہرا نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔“ منیب اس کی شخصیت دیکھتے ہی جان گیا تھا وہ ان کے لیے پہلے ہی چھان بین کراچکا ہوگا۔
“جی ہاں جب آپ کی طرف سے ای میل آیا تھا تب پی کروائی تھی۔” ارحاب نے ان کی بات کی تصدیق کی۔
“ہمیں پیرس جانے سے پہلے ایک بیٹی ہوئی تھی مگر پھر ماہرا نے مجھے اپنی محبت کا واسطہ دے کر کہا میں اس بچی کو حویلی چھوڑ آٶں کیونکہ وہ اُس کی اچھی تربیت نہیں کرسکے گی اور پھر میں اُس معصوم کو جو بس پورا وقت مجھے تک رہی تھی اِس حویلی کے دروازے پر چھوڑ گیا جب میں نے اسے دروازے پر چھوڑا وہ بہت روئی اتنا روئی کے بیس سال تک میں کسی ایک رات بھی پوری نیند نہیں سو پایا ہوں۔” منیب کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوئے تھے۔
“پتا ہے ماہرا سے ضد کرکے جب میں یہاں پہنچا لیکن وہ کسی اور کی ہونے جارہی تھی جس نے مجھے مکمل توڑ دیا، میرے جسم کا حصہ ونی میں جارہا تھا بھلا مجھ سے بہتر ونی میں آئی عورت کے دُکھ کو سمجھ سکتا تھا۔” منیب صاحب آخر میں سر ہاتھوں گراتے رو دیئے۔
“اس کا مطلب ہے وہ۔ انابیہ وہ آپ کی بیٹی ہے۔” ارحاب مکمل حیران و پریشان ہوچکا تھا۔
“آپ۔۔آپ نے اتنا بڑا ظلم کیوں کیا اس کے ساتھ آپ کو علم تک نہیں کے وہ اپنے آغا جان، بابا اور بھائیوں کے بیہو میں کتنا کچھ برا محسوس کرکے چپ چاپ یہاں سے چلی گئی ہے۔” ارحاب اس کے حق میں بولے بغیر نہیں رہ سکا۔
“اس وجہ سے آپ کبھی اس کے حق میں اپنے بابا سے نہیں لڑے تھے نا، اور وہ کہتی ہے اس کے بابا اس سے خاموش محبت کرتے ہیں۔” ارحاب اب شبیر خان سے مخاطب تھا۔
“ہاں میں اپنی بیٹی سے اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں بس ڈر تھا کہیں اسے کسی مرد سے محبت ہوگئی تو بابا جان کی نافرمانی کرنے کے ساتھ اپنی بہن کے طعنے بھی سننے کو ملیں گے۔” شبیر خان نے پہلی بار اپنی سوچ کا اظہار کیا۔
“ہاہا محبت آپ کو ایسی بیٹی ملی ہے جو محبت جیسے لفظ کو چونا سمجھتی ہے۔” ارحاب کی ہنسی طنزیہ تھی۔
ارحاب کے موبائل پر میسج آیا جسے پڑھ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا۔
“اب اجازت چاہوں گا آفس جانا ہے۔” ارحاب وہاں سے اجازت لیتا شہر کے لیے نکل گیا۔


جاری ہے

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on