ایک نیا سویرا نکلنے کو بے تاب تھا۔
وہ گاڑی سے ٹیک لگائے خلاؤں میں گھورتا کسی سوچ میں تھا۔
کچھ سوچنے کے بعد وہ واپس اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔
گاڑی گاؤں کے حدود میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر قریبی قبرستان پر پڑی تھی۔
کئی ہولناک مناظر اس کی آنکھوں میں آئے تھے جنہوں نے اسے گاڑی روکنے پر مجبور کردیا۔
وہ گاڑی قبرستان کے باہر کھڑی کرتا اتر کر قبرستان میں داخل ہوا۔
جہاں تک نظر جارہی تھی قبریں ہی قبریں تھی لیکن دور کسی جانی پہچانی قبر پر اس کی نظر ٹک گئی۔
وہ بوجھل دل کے ساتھ قدم قدم چلتا اس قبر کے پاس آکھڑا ہوا۔
“بابا۔۔۔اچھا ہوا آج آپ نہیں ہیں اگر ہوتے آپ مجھ سے نفرت کرتے۔” وہ اُس قبر کے قریب بیٹھتا پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
“بابا میں آپ جیسا نہیں بن سکا میں بہت برا بن گیا ہوں، میں نے اپنے فائدے کے لیے کسی معصوم کی زندگی برباد کردی۔” وہ بہت شرمندہ تھا۔
“بابا میں نے اس معصوم کو ایک محفوظ ہونے کا بھی احساس نہیں دلایا میں بہت برا ہوں۔” وہ آج دل میں آئی ہر بات کہنا چاہتا تھا۔
“بابا میں مظبوط رہتے رہتے تھک چکا ہوں لیکن اس قبر کے سوا میرے پاس کوئی کندھا میسر نہیں جس پر سر رکھ حال دل سناسکوں۔” وہ انتہا سے زیادہ مجبور ہوچکا تھا۔
وہ خوب دل ہلکا کرنے کے بعد وہاں سے اٰٹھ کر واپس گاڑی میں آ بیٹھا۔
گاڑی شاہ حویلی کی گیراج میں آکر رکی کچھ دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا پھر ہمت کرکے وہ حویلی میں داخل ہوا جہاں ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔
وہ سیڑیاں چڑھتا اپنے مخصوص کمرے میں داخل ہوا جہاں اسے کوئی نئی خوشبو محسوس ہوئی۔
واشروم سے پانی گرنے کی آواز پر اس کو سچ مچ حیرت ہوئی۔
“آپ کو تمیز نہیں ہے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ناک کرتے ہیں۔” وہ ڈھیلی شرٹ پہنے جو بار بار اس کے کندھوں سے پھسل رہی تھی اور ٹراٶزر پہنے بنا دوپٹے کے گیلے بالوں کے ساتھ اسے چونکا گئی تھی۔
“تم۔۔میرے کمرے میں کیا کررہی ہو؟” ارحاب ہوش میں آتے غصے سے بولا۔
“تمہارا نہیں ہمارا کمرہ ہے بیوی ہوں میں آپ کی۔” وہ اس کے غصے کو خاطرے میں لائے بغیر ناز سے بولی۔
اپنے اوپر اس کی تپش بھری نگاہ محسوس کرتی وہ خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
“آپ کو ذرا تمیز نہیں ہے کسی لڑکی کو ایسے گھورتے ہیں کیا۔” وہ شرم کو غصے میں تبدیل کرتی بولی۔
“اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں حلال کام ہے۔” ارحاب کو اب اسے تنگ کرنے میں مزا آرہا تھا۔
“مجھے علم نہیں تھا آپ کھڑوس کے ساتھ ٹھرکی بھی ہوں گے۔” انابیہ نے طنز کیا تھا۔
ارحاب کے اس کی بات پر چودہ طبق روشن ہوگئے۔
ارحاب شرارتی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے قدم بہ قدم اس کے قریب آرہا تھا۔
“ی۔۔یہ آپ کیا کررہے ہیں۔” انابیہ کو اب سہی معنوں میں اپنے منہ پھٹ ہونے پر افسوس ہورہا تھا۔
ارحاب مزید قریب آتا بالکل اس کے مقابل کھڑا ہوا تھا۔
“بیوی ہو تو شوہر کا حق بھی پتا ہوگا۔” ارحاب نے کان کے قریب جھکتے سرگوشی کی۔
“ی۔۔یہ آپ کیا کہ رہے ہیں۔” انابیہ کے پسینے چھوٹنے لگے تھے۔
ارحاب اس کے دونوں ہاتھ پکڑتا اپنے قریب کرگیا۔
“ہم۔۔ہم۔۔ہم ونی میں آئے ہیں۔” انابیہ نے آخری حربہ آزمایا جو بھی ضائع ہوا۔
ارحاب نے جھک کر اپنے دہکتے لب اس کے گال پر رکھ دیئے۔
انابیہ اپنی جگہ ساکت ہوگئی تھی اس کی اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔
ارحاب کے دور ہوتے ہی اس نے گہری سانس لی۔
“ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کھا نہیں جاٶں گا بس یہ منہ دکھائی تھی۔” ارحاب نے انابیہ کے لال گالوں پر چوٹ کی۔
“ا۔۔ایسی منہ دکھائی کون دیتا ہے۔” انابیہ گال رگڑتی غصے سے بولی۔
“آپ کے سرتاج ارحاب حیدر شاہ۔” ارحاب اس کی حالت کا مزہ لیتے بولا۔
“م۔۔مجھے ڈر لگتا ہے میں نے کبھی اپنے آس پاس اپنے بھائیوں اور بابا والوں کے علاوہ کسی مرد کو قریب نہیں آنے دیا۔” انابیہ کی آنکھوں سے آنسوں پھسل کر گالوں پر گرے تھے۔
“ارے رو کیوں رہی ہو میں تمہاری مرضی کے بغیر کوئی زبردستی نہیں کروں گا۔” ارحاب مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتا اسے بیڈ پر بٹھاتے نرمی سے بولا۔
“میں جانتی ہوں یہاں ان سب کے لیے نہیں آئی میں کبھی کسی مرد کی وقت گزاری نہیں بننا چاہتی، اگر کوئی شخص مجھے اٹینشن دے تو وہ مجھے مکمل چاہیے بے انتہا عشق کے ساتھ ورنہ میں اپنے زون میں خوش ہوں۔” انابیہ نے سب کچھ جیسے اسے واضع کردیا۔
“میں آج تک اپنی ماں کے علاوہ کسی اور عورت کے قریب نہیں ہوا لیکن جب کل تمہاری باری آئی تو میرا دل پریشان ہوا تھا۔” ارحاب نے پہلی بار اتنی کھل کر بات کی تھی۔
“ہاں ارحام نے بتایا تھا۔” انابیہ نے کل ہوئی بات کا ذکر کیا۔
“تم نے کب ارحام سے بات کی؟” ارحاب کا لہجہ تیز ہوا۔
“وہ۔۔وہ دراصل میں ارحام کو یونی سے ہی جانتی ہوں۔” انابیہ نے غصہ محسوس کرلیا تھا جس کے بنا پر وہ جھجھک کا شکار ہوئی تھی۔
“کیسے اور کیوں؟” ارحاب نے غصے سے پوچھا۔
“وہ میں نہیں بتاسکتی۔” انابیہ نے ایک ضدی بچے والے انداز میں جواب دیا جس نے حقیقتً ارحاب کے غصے کو ہوا دے دی۔
“انابیہ ارحاب شاہ آج پہلی اور آخری بار مجھ سے میرے علاوہ کسی مرد کا ذکر کیا ہے، اور ہاں ابھی جو لہجہ تم نے استعمال کیا ہے اس کی سزا تمہیں ملے گی جو منھ دکھائی سے آگے ہوگی پھر اعتراض مت کرنا۔” ارحاب یکدم غصے سے لال ہوتی آنکھیں اس کی آنکھوں میں گھاڑتا اسے ڈرا گیا۔
انابیہ کی زندگی کا پہلا موقع تھا جہاں کسی مرد نے اس کے ساتھ ایسا ہارش بیہو کیا تھا۔
“م۔۔م۔میں وہ۔۔” انابیہ سے ڈر کے مارے بولا تک نہیں گیا۔
“تم اس کمرے سے باہر نہیں نکلوگی آئی سمجھ بات۔” ارحاب نے اسے وارن کرتی نظروں سے دیکھا۔
ارحاب خود پر قابو پانے کے لیے دروازے پر غصہ اُتارتا دھڑام سے بند کرکے کمرے سے نکل گیا۔
انابیہ اس بیہو پر وہیں اکیلی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اسے یاد تھا اس کے بھائی اس کا موڈ خراب ہونے پر بھی تکلیف میں آجاتے تھے اور وہ یہاں خاموش آنسوں بھارہی تھی جو ساتھ لایا تھا وہی ان آنسوٶں کا سبب بن گیا تھا۔
****************************