ڈائننگ ٹیبل پر سب بیٹھے تھے جب کنعان اور ابش اکٹھے ا کر بیٹھے۔سربراہی کرسی پر عالم جب کہ ان کے دائیں طرف ماہ پارہ اور بائیں طرف اکبر اور ان کی مسز اور بیٹیاں ماہ پارہ کے ساتھ والی کرسی ایک چھوڑ کر کنان اور ائینہ بیٹھے ناشتے کے لیے لیکن کنعان کے ساتھ ابش کو اتاکنعان نے اپنی کرسی سے اٹھ کر ابش کو جگہ دی جس کا موڈ نہیں تھا ناشتے کا لیکن ائینہ کو گھر والوں کے درمیان بیٹھا دیکھ کر کنان کی چوڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ڈائننگ ٹیبل پر سے اٹھنے سے پہلے عالم صاحب نے کہا نکاح تو تم دونوں نے کر ہی لیا ہے تو اپ کیا دنیا کو بتانے کا بھی کوئی ارادہ ہے کہ جیسے ماں باپ کو نہیں بتاتے کچھ ایسے دنیا کو بھی نہیں بنانا اگر کوئی اس طرح کا پلان ہے تو میں بتا دوں کہ یہ بات چھپی نہیں رہے گی اور اب سے کچھ مہینے بعد الیکشن ہے۔باپ کی بات سن کر تو انہوں نے سر جھکا لیا ان کو کچھ بولتا نہ دیکھ کر انہوں نے ہی اگے بات دوبارہ شروع کی۔اج سے 10 دن بعد تم دونوں کا ولیمہ ہے اگر تم دونوں اعتراض نہ کرو۔ عالم صاحب کی بات سن کر ابش نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن کنعان جو پہلے ہی ابش کی طرف دیکھ رہا تھا۔ٹیبل کے نیچے سے ہی اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ابش جس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے تھے اپنے ہاتھ کے اوپر کنعان کا ہاتھ محسوس کر کے اپنے ہونٹوں اور دانتوں پہ دبا لیا۔نہیں بابا ہمیں کوئی اعتراض نہیں میں کہتا ہوں خاتم سے کہ کوئی مارکی وغیرہ بک کروائے۔باہر کی ساری ارینجمنٹ میں دیکھ لوں گا اور جو لیڈیز کا کام ہے وہ ماما ۔ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔وہ جو بڑے غصے میں گھر سے نکلی تھی اور تھانے میں اتے ہی خبر ملی کہ صبح صبح ظفر بھائی کو گرفتار کر لیا اس کے گھر سے۔شکر ہے کوئی تو اچھی خبر ملی ورنہ لوگوں نے کسر نہیں چھوڑی تھی مور خراب کرنے کی۔جیسے ہی تھانے میں قدم رکھا ٹارچر روم سے اوازیں ارہی تھی۔ایک طرف کرسی پر ظفر بھائی کو بند کر بٹھایا گیا تھا جس کے اوپر پیلے کلر کی بڑی سی بتی جل رہی تھی جس کی روشنی میں مشکل سے وہ انکھیں کھولے بیٹھا تھا اور سامنے بڑی کرسی پر اے ایس پی بالاج اور اس کی دونوں سائیڈوں پر پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے شاہ میر اور شاہ ویر۔ائی جی صاحبہ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے سلوٹ مار کر سلام کیا۔ائی جی کو اتے دیکھ کر کرسی پر بندے شخص نے فورا سے کہنا شروع کر دیا میڈم بچا لیں یہ پتہ نہیں کیا کہہ رہے ہیں یہ لوگ میں تو اس شخص کے نام کو جانتا بھی نہیں یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم ہو وہ اور مجھے صبح سے انہوں نے باندھ کر رکھا ہے میرے بیوی بچے گھر پہ انتظار کر رہے ہوں گے میں نہیں جانتا وہ کون ہے اس شخص نے بھرپور معصوم اواز میں کہا۔۔۔اس شخص کو کوئی جواب دیا بغیر اس نے اپنے قدم بلاج کے افس کی طرف بڑھائے۔اپنے پیچھے ان تینوں کو بھی انے کا کہا۔کیا پکی خبر ہے یہی ہے ظفر بھائی کسی اور کو تو نہیں پکڑ لائے۔نہیں میڈم کیسے بھی زیادہ پکی بات ہے یہی ہے بس اپنے اپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے مجرم کی کوشش ہوتی ہے یہ وہی کوشش ہے اس کی۔اپ فکر نہ کریں شام تک یہ مان جائے گا کہ میں ہی ہوں۔بالاج کی بات ب سن کر کہا جتنا جلدی ہو سکے اس کو منانے کی کوشش کرو۔اس سے پہلے ا کر اس کا وکیل اس کو بے گناہ ثابت کر دے۔جانتے ہو تم لوگ اس طرح کے لوگوں کے وکیل کتنے پاور فل ہوتے ہیں۔۔۔صبح سے اپنا وہ غصہ دبائے بیٹھی تھی کہ وہ کیوں کہہ نہیں سکی ۔ کنعان کے ہاتھ دبانے پر خاموش ہو گئی وقت ملتے ہی فورا کنعان کو کال ملائی۔دوسری طرف سے کال اٹھاتے ہی کہاں مسٹر کنعان مجھے کسی قسم کا بھی فنکشن اٹینڈ نہیں کرنا سو پلیز اپنی فیملی کو منع کر لیں کہ ولیمہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور نہ کسی کو ابھی بتانے کی ضرورت ہے کہ میں کیا لگتی ہوں اس خاندان کی۔میں نے نکاح سے پہلے ہی کہا تھا میری کچھ شرائط ہیں تو ان میں سے پہلی شرط یہی ہے اب اپ اپنی فیملی کو کیسے منع کریں گے یہ اپ پہ ڈیپینڈ کرتا ہے وہ اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو کا ولیمہ کر سکتے ہیں لیکن میں نہیں اؤں گی ولیمہ میں اس انسلٹ سے بہتر ہے کسی کو بتائیں ہی نہ کہ بڑی بہو بھی موجود ہے ۔اپنی بات کہہ کر کنعان کے سنے بغیر فون بند کر دیا۔وہ جو صبح سے پارٹی افس اتے ہی ٹینشن میں تھا ابش نے فون کر کے ایک اور ٹینشن دے دی پارٹی افس اتے ہی خبر ملی کہ چاچو کو پارٹی سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن مل گیا ان کے خلاف جیوری بیٹھی ہے ان پر رشوت کے کیس ہیں اور کچھ لوگوں نے نا انصافی کا بھی دعوی کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے کیسز میں یا کسی قسم کے معاملے میں ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے زیادہ سٹرانگ معاملہ رشوت کا نکل رہا ہے وہ جو صبح سے اس ٹینشن میں تھا ابش اپنے کہہ کر ایک اور ٹینشن دے دی۔۔۔۔۔۔۔
Lamha Ishq by Sara Rana Episode 25
