لیٹ تو نہیں ہوں میں –؟ گاڑی سے باہر نکلتے ہی اس نے سیف کو دیکھا اور جلدی سے چابی ایک ورکر کو پکڑاتے وہ اسکی طرف بڑھا _
نہیں بلکل ٹائم پر ہو – چلو ساتھ میں اندر چلتے ہیں – ہاں چلو چلتے ہیں وہ فون سہی سے کوٹ میں ڈالتا ایک قدم ہی آگے چلا ہوگا کہ کسی کے ساتھ ٹکرانے کے باعث ڈگھمگاگیا اور سامنے موجود شخص کے بریسلٹ جو گر گیا تھا اس پر پیر رکھ گیا _
اوہ ایم سوسوری _ اس نے جلدی سے جھک کر بریسلٹ اٹھایا پر افسوس کہ وہ گولڈ کا نازک سا بریسلٹ اب ٹوٹ چکا تھا _
اندھے ہوکے چل رہے ہو کیا جاہل آدمی _ ابراہیم جو ابھی تک ہتھیلی پر رکھے بریسلٹ کو دیکھ رہا تھا آواز نہیں نہیں کسی کے چلانے پر اوپر دیکھا اور سامنے ایک لڑکی کو کھڑا پایا جو کہ سرخ چہرہ لیے اسے دیکھ نہیں گھور رہی تھی _
بہرے بھی ہو کیا __؟ وہ خوش میں آتا بےساختہ سر نفی میں ہلاگیا – دیکھیں غلطی سے ہوگیا _
غلطی..!!! پبلک پلیز پر آنکھوں کا استعمال کیجیئے تاکہ خود بھی نقصان سے بچ سکے اور دوسرے سے- سرد سے لہجے میں کہتی ابراہیم کو وہ بلکل بھی اچھی نہ لگی _
ہاں تو تم بھی تو دیکھ کر چلتی ساری غلطی میری نہیں ہے – ہاہ
میں دیکھ کر ہی چل رہی تھی تم ہی منحوسوں کی طرح میرے راستے میں کھڑے تھے _
“منحوس کسے کہا ہے تم نے لڑکی _ ؟؟”
تمہیں کہا ہے کیوں کوئ مسئلہ ہے – یااعتراض تو نہیں ہے ویسے ہونا تو نہیں چاہیے _ آبدار نے ہاتھ باندھتے ٹوپیس میں ملبوس ابراہیم کو دیکھتے کہا_
ایک تو میرا اتنا نقصان کردیا – واپس دو میرا بریسلیٹ _ ہاتھ آگے بڑھایا لیکن ابراہیم نے مٹھی بند کرتے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا _
” نہیں دوں گا __ ”
کیا مطلب کیوں نہیں دو گے میری چیز ہے – حیرانی سے کہتے آبدار نے پھر سے بریسلیٹ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا _
پہلے مجھے سوری کہو پھر دوں گا – ابراہیم نے یوں کہا جیسے اگر یہ کنیز ہم سے معافی مانگے تو بادشاہ سلامت اسکی جان بخش دیں گیں _
کھا لینا اسکو جاہل آدمی – اندھا منحوس _
تم جو بھی کہو لڑکی یہ بریسلیٹ اب واپس نہیں ملے گا _ اس نے مزے سے کندھے اچکاۓ
یار ابراہیم نہ کر واپس کردے انکی چیز ہم لیٹ ہورہے ہیں
“پہلے سوری __ “
نہیں بولوں گی – رکھ لو زہر خرید لینا اچھے برینڈ والا _ وہ غصے سے کہتی ریسٹورینٹ کے اندر چلی گئ –
ارے سنو مزاق کررہا تھا میں – ابراہیم اسکے پیچھے جاتا کہ سیف نے اسے روکا – بعد میں بڈی کلائینٹ ویٹ کررہے ہیں ڈنر پر _
ویسے رکھ ہی لیتا ہوں – کیونکہ دادو نے اگر زیادہ زور دیا شادی پر تو زہر تو واقعی چاہیے تیرے بھائ کو _ ہاہاہا
بہت کمینا ہے تو _
تعریف کے لیے شکریہ – وہ ایک نظر ریسٹورینٹ کو دیکھ کر بریسلیٹ کوٹ کی جیب میں ڈالے سیف کے ہمراہ اندر داخل ہوا لیکن نظر گھمانے پر بھی وہ لڑکی اسے نظر نہ آئ _ وہ ورکرز کے بتاۓ راستے سے ہوتا ہوا وی_ آئ_ پی ڈائینگز کی جانب بڑھا جہاں کچھ کلائنٹ انکا ویٹ کر رہے تھے _.
” جو اگر اسے یہ پتا چل جاتا کہ یہ ایک نازک سا بریسلیٹ واقع ہی میں کتنا زہریلہ ہے اور اسکا زہر کس طرح آہستہ آہستہ اسکے وجود میں گھلتا اسے کھوکھلہ کردے گا تو وہ اس لڑکی کے کچھ کہے بغیر وہ بریسلیٹ اسے واپس کر دیتا – بلکہ وہ اسے اٹھانے جھکتا ہی نہیں کچل کر آگے بڑھ جاتا _
کچھ چیزیں نازک اور بےضرر لگتی ہیں – حالانکہ وہ ہوتی نہیں ہیں – یہ ایسا ہے کہ آپکو ایک باغ میں لگے ہوۓ ہزاروں پھولوں میں سے کوئ ایک پھول جو ایک طرف کر کے لگا ہوا ہے وہ پسند آگیا ہے اور یہ جانے بغیر کے کہ اتنے سارے پھولوں سے االگ کیوں رکھا گیا ہے – آپ اسے توڑنے کو ہاتھ بڑھاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خوبصورت دکھنے والا پھول آپکے ہاتھ میں آتے ہی آپکو نیلا کرنا شروع کر دیتا ہے –
پہلے آپ کے ہاتھ اور پھر دیکھتے دیکھتے پورا وجود اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے – اور انسان حیران کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے _
‘ وہ بھی ابھی انجان تھا اسے انجان رکھا گیا تھا ‘ لیکن صرف تب تک کے لیے جب تک وہ ہاتھ بڑھا کر اس پھول کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتا – ایک دفعہ پھول اسکے ہاتھ میں آگیا تو پھر وہ سلو پوائزن کی طرح آہستہ آہستہ اسکی رگوں میں سرائیت کرے گا _
اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی سانسوں پر اور پھر اسکے وجود پر اس کا اختیار بلکل ختم ہو جاۓ گا اور وہ اس زہر کا ایڈیکٹ ہو جاۓ گا جو اس کے لیے جانلیوا ہے – لیکن سب کچھ جانتے ہوۓ بھی وہ اس سے دور رہنے یااس کو چھوڑنے کے بارے میں سوچنا پسند نہیں کرے گا
باقی آئندہ