خاور جب تک نیچے پہنچا تھا زاویار گاڑی لیے وہاں سے جا چکا تھا – کچھ دیر پہلے زاویار لفٹ میں اکیلا ہی چلا گیا تھا اور اس کی حالت کو دیکھتے ہوۓ خاور نے وہاں انتظار کرنے کے بجاۓ سیڑھیوں کا رخ کیا تھا – وہ جلدی جلدی سے دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیا تھا لیکن وہ لیٹ ہوگیا تھا – کیونکہ زاویار گاڑی لیے اکیلا ہی نکل گیا تھا –
اٹلی کی سڑک پر کچھ گاڑیاں پوری رفتار کے ساتھ چل رہی تھیں _ بلیک رنگ میں وہ مختلف قسم کی کارز تھیں جو اس وقت پورے جوش و خروش کے ساتھ بھاگ رہی تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ان سب نے ایک دوسرے سے آگے نکلنا ہے – اسی سڑک پر ایک گاڑی ایسی بھی تھی جو پہلے تو اپنی نارمل سپیڈ میں چل رہی تھی لیکن پتا نہیں کے اس بلیک اوڈی کے مالک کو کیا سوجھی کہ اس نے پہلے تو کار دوسری گاڑیوں کے درمیان سے نکالی _
پھر اسے ان تیز چلتی کارز کی طرف لے جانے لگا -دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کارز کے قریب تر ہوتا گیا اور اگلے ہی لمحے وہ انکے بلکل پیچھے تھا . ایک نہیں دو _ تین _ چار اور پھر پانچ – ہاں اسی پانچ نمبر پے موجود کار کے اندر وہ موجود تھا – ناجانے وہ کیا چاہتا تھا – ناجانے اسکے دماغ میں کیا چل رہا تھا _
” اسکا چہرہ بےتاثر تھا ایک ہاتھ سٹیئرنگ ویل پر اور دوسرا کار کی ونڈو کے اوپر تھا – دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی میں پہنی انگوٹھی میں لگا ہیرا چمک رہا تھا _ “
” اس نے سٹیئرنگ ویل دائیں طرف گھمایا تیزی سے اور اب وہ تیسرے نمبر پر تھا _ اب دونوں ہاتھ سٹیئرنگ ویل پر تھے اور چہرے پر پراسرار اور سائیکو سی مسکراہٹ تھی _ انگوٹھی میں لگا ہیرا اب بھی چمک رہا تھا _ جیسے اپنی ساری چمک وہ آج ان لمحوں میں ہی دیکھا دے گا _ شاید وہ اس شخص کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا تھا اسے اپنی قیمت بتانا چاہتا تھا لیکن آج وہ شخص شاید کسی اور ہی موڈ میں تھا _ “
” اب کی بار اس نے اتنی تیزی اور سختی کے ساتھ کار کو گھمایا کے بےساختہ ان کارز کو دیکھتے لوگوں نے ڈر کر انہیں دیکھا اور ماؤں نے جلدی سے اپنے معصوم بچوں کے کانوں پر ہاتھ رکھا _
وہ بےپرواہ سا اب کہ آواز کے ساتھ ہنسا – اس سرد اور خوفناک سے قہقے نے اس کے آس پاس کی فضا کو بوجھل ساکر دیا _
” وہ زاویار سلطان تھاجو آج اپنے حواسوں میں تو ہرگز نہیں تھا –“
اس نے سیگریٹ جلاتے اپنے سامنے موجود اس آخری کار کو دیکھا – اب ایک ہاتھ میں سیگریٹ تھا دوسرے نے کار کو سنھبالا ہوا تھا _ اب وہ دوسرے نمبر پر تھا اور کارز تیزی سے سڑک پر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی تھیں _
اگلی کار میں موجود شخص نے اپنی کار کو تھوڑا سا آہستہ کیا اور اسکے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی وہ اسے بھی کراس کرتا سب سے پہلے نمبر پر جاپہنچا _ وہ اس شخص کی غصے بھری آواز سن سکتا تھا _
” اب اسکا سیگریٹ ختم ہوچکا تھا – اس نے آخری دفعہ سیگریٹ کو ہونٹوں سے لگاتے ایک لمبی سانس بھری اور سیگریٹ کو چلتی کار سے باہر پھینک دیا _ اسکی آنکھیں سرخ تھیں – چہرہ بھی تپش لیے ہوا تھا – ہاتھوں اور بازوؤں کی رگیں ابھر آئیں تھیں _ اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے سامنے دیکھا اور میکانکی انداز میں مسکرایا – سیگریٹ کا دھواں ناک اور منہ سے نکلتے آنکھوں کے سامنے کے منظر کا دھندلا کرگیا _ ایک ضبط کیا ہوا آنسو بہتا ہوا اسکی ہلکی سی داڈھی میں جذب ہوگیا _
آنکھوں کو جھپکتے اس نے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا _ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سٹیئرنگ ویل کو گھماتے سامنے سے آنے والے ایک ٹرک کی جانب گھمایا اور پھر اسی تیزی سے دونوں ہاتھ اٹھا لیے _ گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہوتی سامنے سے آتے ہوۓ ٹرک سے جاٹکرائ – اور سب کچھ آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوتا گیا _ “
” آوازیں گڈمڈ ہورہی تھیں _ جب اس نے پہلی بار آبدار کو دیکھا تھا – دیکھو….!!! دیکھ ہی تو رہی ہوں –
میں تم سے شادی کروں گی – ناناجان سے دور رہو سلطان _
تم ہنستے ہوۓ پیارے لگتے ہو — ہاہا تمہیں میری آنکھیں پسند ہیں اور مجھے تمہاری آنکھیں – کتنے معصوم ہوتم سلطان _ اچھا چھوڑو تم بہت پیارے ہو — “
اور آخر میں وہ منظر جب آج سے چار سال پہلے اس نے آبدار کو دیکھا تھا اس سے بات کی تھی —
پھر سب کچھ پیچھے رہتا گیا – یاداشت مٹتی گئ اور خون بہتا رہا – اس کے دل میں بہت چپکے سے اک خواہش جاگی تھی کہ کاش وہ اسے دیکھ سکے کاش آخری بار کے لیے ہی سہی — لیکن ہر کسی کی زندگی میں کاش تو ضرور رہتا ہے _
اسے لگا جیسے روح نکال لی گئ ہو – دکھتی آنکھوں کو تھوڑا سا کھولتے اس نے کچھ لوگوں کو اپنی طرف بھاگ کر آتے دیکھا – تب اسے پتا چلا کے اصل میں وہ اب زمین پر پڑا تھا _ اپنے آس پاس بہتے خون کو دیکھتے اس نے ایک زرا سی نظر پھر سامنے کی لیکن سب میں وہ نہیں تھی _ اسکا زہہن اندھیروں میں ڈوبتا گیا اور پھر ہر درد آہستہ آہستہ ختم ہوگیا _ اس ایک شخص کے ساتھ جو کہ کبھی شاید اسکا تھا ہی نہیں _
زاویار سلطان _.
مجھے لگتا تھا کہ وہ لوگ پاگل ہیں جو اپنے عشق کے ایک دیدار کے لیے پاگل ہوتے ہیں – لیکن وہ پاگل نہیں بس عاشق ہوتے ہیں _ یہ راز تب کھلا مجھ پر جب میں اپنے عشق کے ایک معمولی سے دیدار کے لیے تڑپا _ کاش کے میں اس سے مل پاتا -کاش میری کہانی کا انجام یوں نا ہوتا _ اتنی جلدی موت میری کہانی کا حصہ تو نہیں تھی – مجھے تو ابھی اور جینا تھا – تھوڑا اور — ہاں بس تھوڑا سا _ یہ کہانی میری تھی مجھے مرنا نہیں چاہیے تھا _
🍂🍂
Listen My Love by ZK Episode 22
