احتشام بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا تھا جس کا گیلا لباس تبدیل کرکے مریضوں کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا تھا۔ دائیں کلائی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پاس لٹکی ڈرپ قطرہ قطرہ جسم میں جا رہی تھی۔
اسے ہوش آگیا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر آنکھیں کھولیں تو تینوں اندر داخل ہوتے نظر آئے۔
”تو کیسا ہے احتشام؟“ ولید بے تابی سے پاس آیا۔
”تجھے کیا ہوگیا تھا یار؟ اتنا بڑا قدم کیوں اٹھا لیا پاگل؟“ حسن اور زین بھی پاس آئے۔ لیکن وہ ہونٹ سیے بس انہیں دیکھتا رہا۔
”احتشام کوئی مسلہ ہے تو ہمیں بتا، ہم مل کر حل نکالتے ہیں ناں۔۔۔“ ولید نے اس کا ہاتھ تھاما۔
”احتشام ہم تجھ سے بات کر رہے ہیں کچھ تو بول۔۔۔۔۔اور کسی پر نہیں تو اس پر ہی ترس کھا لے جو تیری یہ حالت دیکھ کر کتنا پریشان ہوگیا ہے۔“ حسن نے تھوڑی سختی سے ولید کی جانب توجہ دلائی۔ جس کی آنکھیں رونے کے باعث گلابی ہو رہی تھیں۔
”ہاں ہم سب تیرے لیے پریشان ہیں، بتا تو سہی آخر کیا ہوا ہے؟“ زین نے بھی کہا۔
”وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔“ بلآخر اس کے لب کھلے۔
”کون؟“ یک زبان سوال آیا۔
”ثانیہ۔۔۔۔“ یک لفظی جواب ملا۔
”وہ یونی والی ثانیہ۔۔۔۔جس کے ساتھ ایک سال سے تیرا نین مٹکا چل رہا تھا؟“ حسن نتیجے پر پہنچا۔
”نین مٹکا نہیں چل رہا تھا میں پیار کرتا تھا اس سے، مگر اس نے اپنے کزن کے رشتے کو ہاں کہہ دی اور مجھ سے یہ کہہ کر رابطہ ختم کر دیا کہ ہم خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔“ احتشام نے کسی دکھی بچے کی مانند بتایا۔
تینوں نے بیک وقت ایسے اپنا سر پیٹا جیسے کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والی کہاوت سچ ہوئی ہو۔
”اس بے وفا چھمک چھلو کے پیچھے تو اپنی جان دے رہا تھا۔“ زین نے حیرت سے کہا۔
”زبان سنبھال کر۔۔۔“ اس نے ٹوکا۔
”ٹھیک کہہ رہا ہے زین، تجھے کتنی بار سمجھایا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ سیریس مت ہو، وہ صرف تجھے لوٹ رہی ہے، مگر تو الٹا ہم سے لڑنے لگتا تھا، اب دکھا گئی ناں ہری جھنڈی؟“ حسن نے زین کی حمایت کرتے ہوئے لتاڑا۔
”اب مجھے خود پر غصہ آرہا ہے کہ تجھے کیوں بچایا؟ دل کر رہا ہے اب خود تیرا گلا دبا دوں۔“ ولید نے اسے کوستے ہوئے گلا پکڑا۔
”ہاں دبا دے، مار دے، مجھے زندہ نہیں رہنا۔“ احتشام نے بھی اس کے ہاتھ پکڑ کر گلا دبانے کو اکسایا۔
”پاگل ہوگیا ہے؟“ ولید نے غصے میں اپنے ہاتھ کھینچے۔
”ہاں ہوگیا ہوں میں پاگل، میں نے اتنا عرصہ جس پر اپنے جذبات، اپنی محبت نچھاور کی وہ مجھے یہ صلہ دے کر گئی ہے۔“ اس کے جذباتی ہونے پر ان تینوں کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔
”میں نے پہلی بار کسی سے پیار کیا اور بدلے میں مجھے دھوکہ ملا۔“ وہ کہتے ہوئے رو پڑا۔ حسن نے آگے بڑھ کر اس کا سر سینے سے لگا لیا۔ زین بھی تسلی دینے لگا۔ جب کہ ولید کو اس پر ترس سے زیادہ غصہ آرہا تھا۔
”میرا پہلا پیار ادھورا رہ گیا رفعت بی، میرا پہلا پیار ادھورا رہ گیا۔“ حسن کے سینے سے لگ کر روتے احتشام نے کہا۔ غم میں بھی اسے فلمی ڈائلوگ برابر یاد تھے۔
”تو نے کبھی بتایا نہیں حسن کہ تیرے نام رفعت بی ہے۔“ زین نے متعجب نظروں سے حسن کو دیکھا جو خود ہکابکا تھا۔
اس سارے تماشے پر ولید اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭