احتشام کی حالت ابھی ایسی تھی کہ فی الحال زیادہ ضد بحث مناسب نہیں تھی۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ دوا کے زیر اثر نیند میں چلا گیا تو یہ تینوں بھی روم سے باہر آگئے۔ جو ہاسپٹل فارمیلیٹیز پوری کرنے کے بعد اب کاریڈور میں ایک کنارے کھڑے مذاکرات میں مصروف تھے۔
”میرے خیال سے احتشام اس بات کو اسی لیے اتنا سیریس لے گیا ہے کیونکہ بقول ولید بچپن سے وہ لاڈلا رہا ہے، جو چاہا وہ پا لیا، کبھی کوئی دکھ یا پریشانی نہیں دیکھی، لڑکیوں نے بھی ہمیشہ اسے مثبت رد عمل دیا، اس لیے یہ معمولی سی بات بھی اس کے لیے اتنا بڑا صدمہ ثابت ہوئی جو وہ برداشت ہی نہ کر سکا کہ کوئی اسے چھوڑ گیا۔“ حسن نے ساری صورت حال کا جائزہ لے کر اپنی رائے دی۔
”ہممم۔۔۔۔تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔۔جن لوگوں نے زندگی میں ہمیشہ خوشیاں اور کامیابیاں ہی دیکھی ہوں اکثر وہ کسی چھوٹے سے دکھ یا ناکامی کو بھی برداشت نہیں کر پاتے۔۔۔احتشام کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا ہے۔“ ولید اس سے متفق تھا۔
”ہاں لیکن اب اس کا حل کیا ہے؟“ زین نے سوال اٹھایا۔ اور پھر تینوں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”شاید وقت؟“ حسن اندازاً گویا ہوا۔
”مطلب؟“ زین سمجھا نہیں۔
”مطلب شاید وقت کے ساتھ وہ اس چیز کو قبول کرلے اور اس سے نکل آئے؟ ہم زبردستی یا ڈانٹ ڈپٹ کریں گے تو وہ ہی رد عمل ملے گا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے روم میں دیکھا۔“ وضاحت کرتے حسن کا اشارہ احتشام کے جذباتی رد عمل کی جانب تھا جو ولید کے غصے کی صورت ظاہر ہوا تھا۔
”ہممم۔۔۔۔اسے تھوڑا وقت دیتے ہیں۔“ ولید نے دھیرے سے سر ہلایا۔
”لیکن یار بلڈنگ والوں کو کیا جواب دیں گے؟ اور اس کے گھر والے؟ ان کو یہ سب کیسے بتائیں گے؟“ یکدم حسن کو خیال آیا تو ولید کو بھی فکر لاحق ہوئی۔
”ارے اس کے گھر والوں کی فکر مت کرو۔“ زین نے مداخلت کی۔
”کیوں؟“ دونوں نے اسے دیکھا۔
”کیونکہ جب تم دونوں ہاسپٹل فارمیلیٹی پوری کرنے گئے تھے تب احتشام کی امی کا فون آیا تھا میرے پاس، وہ یونین انچارج راشد بھائی نے اس کے گھر فون کھڑکا کر کہہ دیا تھا کہ احتشام کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے تو وہ مجھ سے تصدیق کر رہی تھیں کیونکہ حسن کا فون سائلنٹ پر ہوتا ہے، ولید اور احتشام کا فون فلیٹ پر رہ گیا، تو بچا میں۔۔۔“ وہ بتانے لگا۔
”تو پھر تو نے آنٹی سے کیا کہا؟“ ولید نے پوچھا۔ کسی بے وقوفی کے خدشے سے دونوں کھٹکے کیونکہ زین کی طرف سے عقل مندی کسی سرپرائز کے جیسی ہی ہوتی تھی۔
”میں نے آنٹی کو بتا دیا کہ احتشام کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے۔“ اس کی بات سن کر دونوں نے شکر کی سانس کھینچی۔
”بلکہ اس نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کی ہے۔“ لیکن اگلی بات سنتے ہی خارج ہوتی سانس راستے میں اٹک گئی۔
”میں نے ہاسپٹل کا ایڈریس بھی دے دیا ہے، وہ صبح تک آجائیں گی، انہیں سب پتا ہے تم لوگ کچھ بھی بتانے کی ٹینشن مت لو۔“ اس نے آرام سے یوں بتایا جیسے اس کام پر داد بنتی ہو۔
”الو کے پٹھے۔۔۔۔“ ولید اسے مکا جڑنے کیلئے بڑھا جسے حسن نے فوری پکڑ لیا۔
”کیا ہوا یار؟“ داد کا منتظر زین دانت ٹوٹنے کی نوبت آنے پر حیران ہوا۔
”آنٹی کو یہ سب بتانے کی کیا ضرورت تھی؟“ ولید خود کو چھڑاتے ہوئے چلایا۔
”جب میں نے پوچھا تھا کہ اس کے گھر والوں کو بتانا ہے یا نہیں تب تو نے ہی تو کہا تھا کہ پہلے اسے ہوش آجانے دو، تو اسے ہوش آگیا ناں؟“ زین نے صفائی دیتے ہوئے یاد دلایا۔
”میرا مطلب تھا کہ اسے ہوش آجائے پھر سوچیں گے کہ گھر والوں کو کیا اور کیسے بتانا ہے؟“ ولید نے دانت پیس کر بات واضح کی۔
”تو یہ بات اس وقت مکمل کرنی چاہئے تھی ناں؟“ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے لگا۔
”ہاں، غلطی میری ہے، مجھے یاد رکھنا چاہئے تھا کہ اشارہ عقل مند کو کافی ہوتا ہے بے وقوف کو پوری بات بتانی پڑتی ہے۔“ ولید نے بھی برہمی سے طنز کیا تو زین اسے خفگی سے گھور کر رہ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭