نیا دن نکل آیا تھا۔ حسب معمول ولید اور احتشام جلدی بیدار ہوگئے تھے جب کہ حسن اور زین سوئے پڑے تھے۔ ولید نے اپنے اور احتشام کیلئے چائے بنا لی تھی۔ دونوں اکثر پہلے اٹھ کر چائے پی لیتے تھے اور ان دونوں کے جاگنے کے بعد ساتھ ناشتہ کرتے تھے۔ اور کبھی اگر زیادہ بھوک ہوتی تو یہ لوگ ناشتہ بھی کر لیتے تھے۔
احتشام بالکونی میں کھڑا تھا۔ ولید بھی دو چائے کے کپ لیے وہاں آگیا۔ اس نے احتشام کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ وہ سامنے منڈیر پر بیٹھے دو کبوتروں کو دیکھ رہا تھا۔
”چائے۔۔۔“ ولید کی آواز پر اس کا ارتکاز ٹوٹا اور اس نے اپنا کپ تھام لیا۔ ولید بھی برابر میں کھڑا ہو کر چائے پینے لگا۔
”تجھ سے ایک مدد چاہیے احتشام۔۔۔“ اس نے بات شروع کی۔
”ہاں بول۔۔۔“ وہ سن رہا تھا۔
”میں نے بتایا تھا ناں کہ میں اپنی کزن سویرا سے ملا تھا جو اسی شہر میں رہتی ہے اور سائیکالوجی ڈپلومہ کر رہی ہے؟“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں تو؟ اس کے گھر تیرا رشتہ لے کر جانا ہے؟ امی سے بات کروں؟“ احتشام نے سنجیدگی سے غیر سنجیدہ نتیجہ نکال لیا۔
”پہلی بات تو یہ کہ ایسا نہیں ہے، دوسری بات، ایسا ہوتا بھی تو میں تجھ سے پہلے شادی نہیں کرتا، پہلے تیری شادی ہوگی پھر میری۔۔“ ولید نے بھی خاصی تفصیلی تصحیح کر ڈالی۔
”اس کا مطلب تیری شادی کبھی نہیں ہوگی۔“ اس نے بڑبڑا کر گھونٹ لیا جس کا مفہوم تھا کہ میں شادی نہیں کرنے والا۔
”فی الحال بات میری شادی کی نہیں میری کزن کی ہو رہی تھی۔“ ولید واپس موضوع پر آیا۔
”ہاں تو کیا ہوا تمہاری کزن کو؟“
”اسے مدد چاہیے۔“
”کیسی مدد؟“
”اسے آسائنمنٹ ملا ہے کہ اسے ایک ڈپریشن کے مریض کی کاؤنسلنگ کرکے اسے واپس زندگی کی طرف لانا ہے، کیا تو اس کیلئے وہ مریض بن سکتا ہے؟“ ولید نے سوچ سمجھ کر اصل مسئلہ بتایا۔
”میں کیوں مریض بنوں؟ تیری کزن ہے، تو بن۔۔۔“ حسب توقع جواب آیا۔
”میں بن جاتا یار، لیکن پرابلم یہ ہے کہ کزن ہونے کی وجہ سے اس کی کچھ فرینڈز مجھے جانتی ہیں، میں جاؤں گا تو وہ پکڑی جائے گی، اسے کوئی قابلِ بھروسہ اجنبی چاہیے اور تجھ سے زیادہ قابلِ بھروسہ اور کون ہو سکتا ہے بھلا؟“ اس نے تیار شدہ جواب دیا۔
”تو حسن یا زین میں سے کسی کو لے جا۔“ اس کے پاس بھی حل تیار تھا۔
”اسے ڈپریشن کا مریض چاہیے، عقل سے بالکل فارغ پاگل نہیں چاہیے۔“ ولید نے طنزیہ جتایا۔
”اور ان سے پہلے تو میرا وہ دوست ہے جس نے ہمیشہ میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔“ اب وہ ایموشنل بلیک میلنگ کی طرف آیا۔ احتشام خاموشی سے چائے پینے لگا۔
”کل صبح پہلا کاؤنسلنگ سیشن ہے جو سینئرز کی نگرانی میں ہوگا، اسٹوڈنٹس اپنے اپنے پیشنٹس کا تعارف کرانے کے بعد کاؤنسلنگ جرنی شروع کریں گے، تو چلے گا ناں میرے ساتھ سویرا کیلئے؟“ اس نے تفصیلات بتاتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔ احتشام نے فوری جواب دینے کے بجائے اسے دیکھا۔
”یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟“
”یہ تو ڈرامہ شروع ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا۔“ ولید نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭