ایک بڑے سے پر سکون کمرے کے وسط میں ٹیبل رکھی تھی اور اس کے گرد دو آرام دہ کرسیاں تھیں۔ جن پر سویرا اور احتشام مقابل بیٹھے ہوئے تھے۔
کمرے میں بظاہر ان کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ لیکن در حقیقت ایک کمرے کے بیچ حائل سیاہ شیشے کی دیوار نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک حصے میں یہ دونوں تھے اور دوسرے حصے میں تین ٹیچرز پر مشتمل ایک پینل ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ اور بات چیت سن رہا تھا۔ اس پینل میں دو فی میل سینئر ٹیچرز، مس شازیہ، مس سلمیٰ تھیں اور ایک فریش میل ٹیچر سر جنید تھے۔
”اپنے بارے میں کچھ بتاؤ احتشام؟“ سویرا نہایت شیریں لہجے میں گویا تھی۔
”کیوں بتاؤں؟ تم ڈی سی لگی ہو؟“ ٹکا سا سوال آیا۔
دوسری جانب مس شازیہ کی ہنسی بے ساختہ تھی جنہوں نے مس سلمیٰ کی گھوری پر فوری ”کنٹرول“ کیا اور سر جنید نے مس شازیہ سے عبرت پکڑ لی۔
”میں تمہاری دوست ہوں احتشام، اور دوستوں سے بات کرنے سے دل ہلکا ہوتا ہے۔“ سویرا نے اپنے کھولتے ہوئے خون کو قابو میں رکھ کر زبان سے شہد ٹپکایا۔
”خواہ خواہ دوست ہو؟ میں نے تو نہیں بنایا، یہ تو وہ بات ہوگئی کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔“ احتشام کی بے زاری میں فرق نہ آیا۔ البتہ سویرا کا پارہ ہائی ہونے لگا۔ اگر پینل کی موجودگی کا خیال نہ ہوتا تو ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اس کے سر پر مار دیتی۔
”کنٹرول سویرا کنٹرول۔“ وہ گہری سانس لے کر اندر ہی اندر خود سے بولی اور دوبارہ گویا ہوئی۔
”میں جانتی ہوں کہ ثانیہ کے الگ ہونے کے بعد سے تم بہت اپ سیٹ ہوگئے ہو، نئے تعلقات بنانے سے كترانے لگے ہو، اور یہ نیچرل بھی ہے۔“ وہ مزید کہنے لگی جسے ولید نے سارا پس منظر بتا دیا تھا اور یہ بات احتشام کے علم میں بھی تھی۔
”اور میں تمھیں بالکل بھی کسی بات کیلئے فورس نہیں کر رہی ہے میں۔۔۔۔“
”تم کر بھی نہیں سکتی، میں خود اپنی مرضی کا مالک ہوں۔“ ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ احتشام نے جتا دیا۔ سویرا اسے خونخوار نظروں سے گھور کر رہ گئی۔
دوسری جانب مس سلمیٰ سنجیدگی سے کاغذ پر کچھ لکھنے لگیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭