سب یوں ہی چل رہا تھا لیکن دھیرے دھیرے میری پسندیدگی بڑھنے لگی اور ایک روز میں نے اس سے اظہار کر دیا کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔ وہ کچھ نہ بولی بس مسکرا کر بھاگ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہاں بھی حال ایسا ہی ہے۔
اس کے بعد ہمارے بیچ بے تکلُف بڑھ گئی۔ اب اسے کچھ بھی چاہیے ہوتا تو مجھ سے فرمائش کر دیتی اور میں اگلے دن وہ حاضر کرنا خود پر فرض کرتا گیا۔ لیکن یہ سب ابھی میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا، ولید کو بھی نہیں!
ایک روز ویڈیو کال پر بات کرتے ہوئے امی نے پوچھ لیا کہ کسی کو پسند کرتے ہو تو ابھی بتا دو ورنہ میں خود لڑکی ڈھونڈنا شروع کر رہی ہوں کیونکہ ڈگری پوری ہوتے ہی انہیں میری شادی کرنی ہے۔ ان کی بات پر فوری میرے ذہن میں ثانیہ کا خیال آیا۔ میں نے انہیں تو اس وقت ٹال دیا لیکن ثانیہ سے بات کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔
میں اور ثانیہ اس وقت یونیورسٹی لان کی ایک بینچ پر بیٹھے تھے جب میں نے اس سے براہ راست کہہ دیا۔
”امی میرے لئے لڑکی ڈھونڈنے میں سنجیدہ ہوگئی ہیں ثانیہ، لہٰذا میں انہیں تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔“
”میرے گھر کیوں؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”ہماری شادی کی بات کرنے کے لیے۔“
”شادی؟“ وہ حیران ہوئی۔
”ہاں، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تم اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو جیسے تمھیں کچھ پتا ہی نہیں۔“ میں نے بر ملا کہہ دیا۔
”ہمارے بیچ شادی کی تو کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔“ اس کی بات میرے لئے شاكنگ تھی۔
”کیا مطلب بات نہیں ہوئی؟ میں نے بتایا تو تھا کہ تم مجھ اچھی لگتی ہو، تو اس کا مطلب یہ ہی ہوا ناں کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“
”ضروری تو نہیں جو اچھا لگتا ہے اس سے شادی بھی کی جائے۔“
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“ میں صدمے میں تھا۔
”سچ کہہ رہی ہوں، میری دوست حنا بھی یہاں ایک لڑکے کو پسند کرتی تھی لیکن وہ یہ ہی کہہ کر شادی سے پیچھے ہٹ گیا۔“ اس نے اپنی یونیورسٹی فیلو کا حوالہ دیا۔
”جب تم نے بھی مجھے کہا کہ تم مجھے پسند کرتے ہو تو میں نے حنا کو بتایا اور اس نے مجھے یہ ہی کہا کہ تم بھی بعد میں ایسا ہی کرو گے لہٰذا میں سیریس نہ ہوں۔“
”لیکن دیکھو وہ غلط ثابت ہوگئی ناں، میں اس جیسا نہیں ہوں، میں سچ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے زور دیا۔
”لیکن میں نہیں کر سکتی۔“
”کیوں؟ کیا میں تمھیں پسند نہیں؟“ میں نے جاننا چاہا۔ وہ فوری طور پر جواب دینے کے بجائے لب بھینچ گئی۔
”جواب دو ثانیہ کیا تم۔۔۔۔“
”کیونکہ ہمارے یہاں خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔“ وہ اچانک بولی۔
”تم ایک بار ہاں تو کہو، تمہارے گھر والوں کو میں راضی کرلوں گا میرا وعدہ ہے۔“ میں نے یقین دلایا۔ کیونکہ میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔
”یہ ممکن نہیں ہے، میری بات بچپن سے میرے تایا زاد سے طے ہے اور ڈگری پوری ہوتے ہی میری شادی ہوجائے گی۔“ اس کا انکشاف مجھے ہلا گیا۔
”کیا؟ اور تم اس کے باوجود مجھ سے اتنا کلوز ہوگئی؟“ میں بے ساختہ کہہ گیا۔
”میں کب کلوز ہوئی؟“ وہ حیران ہوئی۔
”ہمیشہ۔۔۔۔روزانہ صبح کے پہلے میسیج سے لے کر رات کی آخری کل تمہاری ہوتی تھی، تم نے مجھ سے اپنی اتنی باتیں شیئر کیں، مجھ سے بے جھجھک اپنی فرمائشیں پوری کرائیں، مجھے یہ فیل کرایا کہ میں تمہارے لیے اسپیشل ہوں، یہ سب کلوز ہونا نہیں تو اور کیا ہے؟“ میں نے سب گنواتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”میں بس تمھیں دوست سمجھ کر یہ سب کرتی تھی اور مجھے لگا کہ تم بھی میرے ساتھ بس وقت گزاری کر رہے ہو جیسا میں نے یہاں سب کو کرتے دیکھا ہے، مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنے سیریس ہوجاؤ گے۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”لیکن اب تو پتا چل گیا ہے ناں؟ تو اب کر لو مجھ سے شادی۔“ میں باقاعدہ منت پر اتر آیا۔
”میں نہیں کر سکتی احتشام، لہٰذا تم بھی یہ ضد چھوڑ دو۔“ اس نے صاف انکار کردیا۔ میں دکھ سے اسے دیکھے گیا۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم وہ ہی لڑکی کو جو پہلے دن مجھے گھبرائی ہوئی سی ملی تھی؟“ اب میں حیران تھا۔
”ہاں، کیونکہ ان دو سالوں میں یہاں کئی طرح کے لوگوں سے مل کر میں بہت کچھ سیکھ چکی ہوں۔“ اس نے بھی انکار نہ کیا۔
”کس سے مل کر کیا سیکھ چکی ہو؟ اپنی اُن بے مروت دوستوں سے مل کر جذبات سے کھیلنا جو خود آئے دن بوائے فرینڈز بدلتی رہتی ہیں؟ پھر تو سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ صحبت کا اثر ہوجاتا ہے۔“ میں تھوڑی برہمی سے کہہ گیا۔
”تمھیں جو سمجھنا ہے سمجھو لیکن آئندہ مجھے تنگ نہ کرنا۔“ وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی۔
اچانک میرے غصے پہ پھر سے فکر غالب آگئی، اسے کھو دینے کی فکر، میں فوری اٹھ کر اس کے پیچھے گیا اور راستہ روک لیا۔
”ثانیہ پلیز۔۔۔۔ٹھیک ہے غصے میں وہ سب کہنے کیلئے میں سوری کرتا ہوں، بس تم پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، میں اپنے گھر والوں کے ساتھ آ کر خود تمہارے پورے خاندان کو راضی کروں گا میرا وعدہ ہے۔“ میں نے پھر منت کی۔
”خاندان تو بعد میں آئے گا پہلے میں ہی راضی نہیں ہوں۔“ اس نے دھیان دلایا۔
”تم کیوں راضی نہیں ہو؟ کیا تمہارا وہ کزن مجھ سے زیادہ بہتر ہے؟“ میں نے بے تابی سے موازنہ کیا۔
”ہاں، وہ تم سے لاکھ درجے بہتر ہے، اور میں اسی سے شادی کروں گی۔“ اس نے ذرا لحاظ نہ رکھا۔
”ایسا مت کہو ثانیہ، میں تمہارے بنا مر جاؤں گا۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
”تو مر جاؤ۔۔۔“ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ میں بالکل سناٹے میں آگیا۔
اتنا عرصہ میں نے جس لڑکی کے ساتھ خوبصورت وقت گزارا، جس پر اپنے جذبات نچھاور کیے، جس کے ساتھ مستقبل کے خواب سجائے، حتیٰ کہ اپنے دوستوں سے بھی لڑا، بلآخر وہ لڑکی مجھے چھوڑ گئی۔
تو کیا میں اتنا گیا گزرا ہوں؟ اس قابل بھی نہیں ہوں کہ ایک لڑکی مجھے ہمسفر چن لے؟
یہ ہی سوال، ثانیہ کا رویہ، مسلسل میرے دل پر خنجر چلا رہے تھے۔ مجھے اپنے ماتھے پر بڑا بڑا LOSER لکھا ہوا نظر آنے لگا۔
اور ان سب سے تنگ آ کر بلآخر میں نے قصہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔قصہ ختم نہیں ہوا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭